سانحہ اے پی ایس کیس: ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، حکم کریں ایکشن لیں گے،وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملہ کیس میں طلب کرنے پر سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے عدالت کو واقعے کے ذمہ داران کے تعین کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم دے ہم ایکشن لیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کو آج صبح 10 بجے کے قریب فوری طور پر طلب کیا تھا۔
وزیر اعظم تقریباً دو گھنٹے بعد کمرہ عدالت نمبر 1 میں پہنچے جہاں وکلا، سکیورٹی اہلکاروں اور اے پی ایس حملے کے متاثرین کے اہل خانہ کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت چند وفاقی وزرا بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب، آپ آئیں جس پر وزیر اعظم روسٹرم پر پہنچے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ والدین کو تسلی کرانا ضروری ہے، والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام بالا کے خلاف کارروائی ہو۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم عمران خان سے استفسار کیا کہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟
جس پر وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ ’جو ممکنہ اقدامات ہوسکتے تھے ہم نے کیے، ہماری اس وقت صوبے میں حکومت تھی‘۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خصوصی اقدام نہیں اٹھائے گئے، حکومت نے کوئی اہم اقدام اٹھائے ہیں تو عدالت کو بتایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان ہر پاکستانی کی جان و مال کا تحفظ دیتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوراً پشاور پہنچا اور والدین سے ملاقات کی تھی‘۔
مجھے بات کرنے کا موقع دیں، عمران خان
چیف جسٹس نے دوران سماعت وزیراعظم سے استفسار کیا کہ ’ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟‘، جس پر عمران خان نے بتایا کہ ’میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا‘۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’مجھے بات کرنےکا موقع دیں، میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں یہ جاننا ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 7 سال سے کسی بڑے کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی، اب آپ با اختیار وزیر اعظم ہیں۔
فوج کے کرتا دھرتا مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہوگئے، چیف جسٹس
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو، کیا ہم پھر مزاکرات کرکے سرنڈر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے، سپاہی سے پہلے ذمہ دارن اعلیٰ افسران تھے، فوج کے اس وقت کے جو کرتا دھرتا تھے،مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان حکومت آنے کے بعد داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آگئے ہیں، اور ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر بھی گئے ہیں، دہشت گرد ان ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں پاکستان میں روپوش ہوئے ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، آپ وزیراعظم ہیں، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، یہ بتائیں کہ سانحہ کے بعد اب تک کیا اقدامات اٹھائے‘۔
وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم جنگ اس لیے جیتے کہ پوری قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی رہی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینشن کمیٹی بنائی جو معاملہ کو دیکھ رہی ہے، والدین نے جو نام دیے ان میں سے کوئی مقدس گائے نہیں، سپریم کورٹ حکم دے ہم ایکشن لیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں پشاور پہنچا اور لواحقین سے ملا، ماں باپ سمیت پوری قوم صدے میں تھی، واضح کر دوں کہ جو ازالہ کر سکتے تھے کیا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ان کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیے تھے‘، اور استفسار کیا کہ آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیئے تھے ،ان کا کیا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ اقتدار میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے، آپ نے کیا کیا ؟ ان ہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے‘۔
جسٹس قاضی امین نے دوران سماعت سوال کیا کہ ’کیا ہم دوبارہ ان کے سامنے سرینڈر کر رہے ہیں؟‘
بعد ازاں سپریم کورٹ نے حکومت کو سانحہ اے پی ایس متاثرین کے ساتھ مل کراقدامات اٹھانے کا حکم اور دو ہفتوں کے اندر پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے مزید وقت کی استدعا کی اور عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے 4 ہفتے کا وقت دے دیا اور سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
وزیر اعظم کی آمد سے قبل سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے اور انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد قاضی جمیل الرحمٰن بھی سپریم کورٹ پہنچے تھے۔
وزیر اعظم کی سپریم کورٹ طلبی
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس پر عدالت عظمیٰ نے والدین کے مطالبے پر اٹارنی جنرل کو آئندہ دو ہفتے بعد ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داران کو سزاؤں سے متعلق حکومتی اقدامات کی تفصیل طلب کی تھیں۔
اس ضمن میں واضح رہے کہ سانحہ اے پی ایس والدین کا مطالبہ تھا کہ بلاتخصیص اس وقت کے اعلیٰ عسکری سیاسی حکام کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: متاثرہ خاندانوں کی 'ٹی ٹی پی' کو ایمنسٹی دینے کی مخالفت
تقریباً 7 سال قبل پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر عسکریت پسندوں کے حملے میں کل 147 افراد شہید ہوئے تھے، جن میں سے 132 بچے تھے۔
آج سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا انہیں اس سے آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے، وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا‘۔
خیال رہے کہ سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے گزشتہ سماعت میں ان عوامی اور فوجی عہدیداروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کا مطالبہ کیا تھا جو ان کے خیال میں اسکول میں حفاظتی اقدامات کے ذمہ دار تھے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، اعلی حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دفتر چھوڑ دوں گا مگر کسی کا دفاع نہیں کروں گا‘۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس میں وزیراعظم کو ساڑھے 11 بجے طلب کیا تھا۔
'انٹیلی جنس کہاں غائب ہوجاتی ہے؟'
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا؟، جب ان کے اپنے شہریوں کے تحفظ کی بات آتی ہے تو انٹیلی جنس (ایجنسیاں) کہاں غائب ہو جاتی ہیں؟‘۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری رپورٹ میں سابق آرمی چیف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل سے متعلق کچھ نہیں ملا۔
اس پر چیف جسٹس احمد نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، انٹیلی جنس پر اتنا خرچ کیا جا رہا ہے، لیکن نتائج صفر ہیں‘۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا ردعمل ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے آسان اور حساس ترین ہدف بچے تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: اٹارنی جنرل کو کمیشن رپورٹ پر حکومت سے ہدایت لینے کا حکم
کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا تذکرہ
دوران سماعت عدالت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا اور جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟‘
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے، یہاں چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی مگر اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے‘۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مشاہدہ کیا کہ ’یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو، اے پی ایس واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی‘۔
جوڈیشل کمیشن رپورٹ
5 اکتوبر 2018 کو پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن مقرر کیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سے ایک جج کو اس کام کے لیے نامزد کرنے کا کہا گیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان نے کارروائی کی اور کمیشن کی رپورٹ پیش کی جسے سپریم کورٹ نے پبلک کرنے کا حکم دیا۔
کمیشن نے اپنی 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ اے پی ایس واقعے نے مسلح افواج کو داغدار کیا۔
کمیشن کی رپورٹ سوگوار خاندانوں کے بیانات، بیوروکریسی، پولیس اور فوج کی جانب سے دیے گئے شواہد پر مشتمل تھی۔
اس میں سیکیورٹی کی حملے پر ’دیر سے دیے گئے ردعمل‘ کا خصوصی ذکر کیا گیا اور شہدا کے والدین کی طرف سے مشترکہ شکایات کو اجاگر کیا گیا۔
رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ ’اگر افواج نے تھوڑی تیزی سے ردعمل دیا ہوتا اور حملے کے آغاز میں ہی عسکریت پسندوں سے لڑا ہوتا تو اس واقعے کا اثر کم ہو سکتا تھا‘۔
اس نے ایم وی ٹی -2 اور کوئیک رسپانس فورس کو ان کی فوری کارروائی کے ذریعے اسٹوڈنٹس بلاک کی طرف دہشت گردوں کی پیش قدمی کو ناکام بنانے کے لیے سراہا۔
رپورٹ میں یاد دلایا گیا کہ ’ہمارا ملک ایک ایسے دشمن کے ساتھ جنگ میں تھا جس نے خفیہ سرگرمیاں کیں اور 2013-14 میں دہشت گردی بھی عروج پر تھی تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری ’حساس تنصیبات اور نازک اہداف کو دہشت گردانہ حملے کے شکار کے طور پر چھوڑ دیا جائے‘۔
رپورٹ 9 جولائی 2020 کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی اور اگست 2020 میں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو رپورٹ پر وفاقی حکومت سے ہدایات لینے کا حکم دیا تھا۔
ستمبر 2020 میں سپریم کورٹ نے حکومت کو رپورٹ کو عام کرنے کا حکم دیا تھا۔