قومی اسمبلی میں قانون سازی پر حکومت کو دو مرتبہ ناکامی کا سامنا
اسلام آباد: پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اپوزیشن اراکین کی عدم موجودگی میں اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی خفیہ حمایت سے کورم پورا ہونے پر سات بلوں کی منظوری کے ایک روز بعد حکومت کو اسمبلی میں دو بلوں کو متعارف کرانے کی تحریک پر ووٹنگ کے دوران دو بار اپوزیشن کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن جاوید حسنین کی جانب سے سیاست دانوں کو اپنی پارٹیاں تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے نجی بل پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے کی تحریک پر 104 کے مقابلے 117 ووٹوں سے حکومت کو شکست دی۔
اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اسمبلی عاصمہ قدیر کی جانب سے خواتین کے خلاف نازیبا ریمارکس دینے والوں کے لیے سزا میں اضافے کے بل پر اپوزیشن نے دوبارہ حکومتی ارکان کو شکست دی۔
ڈپٹی اسپیکر نے اچانک اجلاس بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عاصمہ قدیر کو بل پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ اپوزیشن ارکان نے اسے اکثریت سے مسترد کر دیا تھا۔
تاہم انہوں نے ووٹوں کی گنتی نہیں کرائی کیونکہ اپوزیشن کی بظاہر حکومتی اراکین کے مقابلے میں تعداد زیادہ تھی جن میں سے اکثر پہلی شکست کے بعد ایوان سے چلے گئے تھے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ایوان میں آمد کے باعث اپوزیشن بینچز پر ارکان کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی سے نیب آرڈیننس، صحافیوں کے تحفظ کا بل منظور
پہلے بل پر ووٹ کے نتیجے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے اسے اپوزیشن کی ’اخلاقی فتح‘ قرار دیا۔
انہوں نے متعدد متنازع بلوں کی منظوری کے لیے رواں ہفتے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے حکومتی منصوبے کے واضح حوالے سے کہا کہ ’اخلاقی طور پر عمران خان کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے‘۔
ایاز صادق نے کہا کہ اپوزیشن کو یہ کامیابی اس دن ملی جب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ، جو دو سال سے زائد عرصے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں تھے، عدالت سے پچھلے مہینے ضمانت ملنے کے بعد پہلی بار اجلاس میں شریک ہوئے۔
جب خورشید شاہ اسمبلی ہال میں داخل ہوئے تو اپوزیشن ارکان کی طرف سے زوردار ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا گیا۔
حکومت کو پہلی شکست کا سامنا اس وقت ہوا جب اپوزیشن نے مسلم لیگ (ن) کے جاوید حسنین کی جانب سے آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک کو مسترد کرنے کے چیئرمین کے حکم کو چیلنج کیا۔
جیسے ہی ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کی تحریک پیش کی تو وزرا سمیت حکومتی ارکان کی ایک بڑی تعداد جو اپنے چیمبروں اور لابیوں میں موجود تھی، اپنی نشستوں پر واپس آنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی پر قومی اسمبلی، سینیٹ میں حکومت کو اپوزیشن کی سخت تنقید کا سامنا
تاہم شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد عمر اور شیریں مزاری سمیت کابینہ کے سینئر ارکان کی موجودگی بھی حکومت کو شکست کا سامنا کرنے سے نہ روک سکی اور نتیجتاً ڈپٹی اسپیکر نے جاوید حسنین کو بل پیش کرنے کی اجازت دے دی۔
بل کی حمایت میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز نے کہا کہ انہوں نے تجویز دی ہے کہ جو بھی سیاستدان کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اسے کم از کم 7 سال تک اپنی پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ بل ملک کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر فوجی آمر نے اپنی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے سابقہ حکمران جماعت سے نئی پارٹی بنائی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ لوٹاگیری (وفاداری بدلنے کا رواج) بند ہونا چاہیے، وہ وقت آگیا ہے جب حکمران پی ٹی آئی کے لوگ اگلے انتخابات سے قبل اپنی پارٹیاں بدلنے کا سوچ رہے ہوں گے‘۔
بعد ازاں آزاد ایم این اے محسن داوڑ اور حکمراں جماعت کے ایم این اے جنید اکبر کی جانب سے مالاکنڈ کے علاقے میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے حوالے سے اٹھائے گئے معاملے پر بات کی گئی۔
محسن داوڑ نے دو بار حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات کا معاملہ اٹھانے کی کوشش کی تاہم دونوں مواقع پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی اور مائیک بند کردیا۔
دریں اثنا قومی اسمبلی میں 11 نجی اراکین کے بل پیش کیے گئے جنہیں متعلقہ کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا اور سول سرونٹس (ترمیمی) بل 2020 کی منظوری دی گئی۔
مزید پڑھیں: قومی سلامتی کے امور پر فوج، قانون سازوں کو بریفنگ دے گی
قبل ازیں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے لال چند نے کراچی کے علاقے ملیر میں ایک فارم ہاؤس میں ناظم جوکھیو نامی شخص کے قتل کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کرائی اور جرائم میں اضافے پر پیپلز پارٹی کی سربراہی میں حکومت سندھ کی مذمت کی۔
انہوں نے صوبے میں پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک رپورٹ کا ذکر کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ 310 پولیس افسران منشیات کے کاروبار میں ملوث پائے گئے۔
انہوں نے ناظم جوکھیو کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی موت سے قبل انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے مقدمے کے تیزی سے اندراج کے بعد ملزمان کو پہلے ہی گرفتار کر لیا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ اسرار گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ کے قتل پر مقدمات کیوں درج نہیں کیے گئے۔