نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع
نورمقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا جس میں رواں برس کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک گھر میں خاتون کے قتل سے قبل کے واقعات کی ویڈیوز ہیں۔
نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ کی جانب سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں جمع کرایا گیا۔
جمع کرائی گئی ٹرانسکرپٹ کے مطابق ڈی وی آر کیمرے کا وقت پاکستان کے معیاری وقت سے 35 منٹ آگے ہے۔
مزیدپڑ ھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد
ٹرانسکرپٹ کے مطابق 18 جولائی کو رات 10 بجکر 18 منٹ پر مقتولہ نور مقدم فون سنتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے گھر داخل ہوئی تھیں۔
اس میں کہا گیا کہ 19 جولائی رات 2 بجکر 39 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم بیگ لے کر گیٹ سے نکلتے نظر آتے ہیں اور گھر کے مرکزی دروازے کے باہر ٹیکسی میں سامان رکھ کر دوبارہ گھر میں داخل ہوتے ہیں۔
ٹرانسکرپٹ کے مطابق 2 بجکر 41 منٹ پر نور مقدم انتہائی گھبراہٹ اور خوف میں ننگے پاﺅں گیٹ کی طرف بھاگ کر آتی ہیں جبکہ مقتولہ کے باہر آنے پر چوکیدار افتخار گیٹ کو بند کرتا نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں اس دوران ظاہر جعفر گھر سے جلدی میں گیٹ پر آ کر نور مقدم کو دبوچ لیتا ہے اور نور مقدم ہاتھ جوڑ کر مرکزی ملزم کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہے۔
ٹرانسکرپٹ کے مطابق ظاہر جعفر اس کی پروا کیے بغیر نور مقدم کو زبردستی کھینچ کر گھر کے اندر لے جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے، سپریم کورٹ
ٹرانسکرپٹ کے مطابق رات 2 بجکر 46 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم گھر سے نکل کر مین گیٹ پر آتے ہیں اور دونوں گیٹ سے باہر گلی میں سامان والی ٹیکسی میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی گئی نور مقدم قتل کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ کے مطابق رات 2 بجکر 52 منٹ پر ظاہر جعفر اور نور مقدم بیگ لیکر اس گھر میں مین گیٹ سے داخل ہوتے ہیں، مین گیٹ پر چوکیدار گھر کے صحن میں ہے اور کالے رنگ کا کتا بھی نظر آتا ہے۔
ٹرانسکرپٹ کے مطابق 20 جولائی کو شام 7 بجکر 12 منٹ پر نور مقدم فرسٹ فلور سے چھلانگ لگا کر گراﺅنڈ فلور کی گیلری کے ساتھ لگے جنگلے پر گرتی نظر آتی ہے جبکہ نور مقدم کے ہاتھ میں موبائل فون بھی ہوتا ہے وہ لڑکھڑاتی ہوئی بیرونی مین گیٹ پر آتی ہے۔
سی سی ٹی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ کے مطابق نور مقدم باہر جانا چاہتی ہے، گیٹ پر چوکیدار افتخار اور مالی گیٹ بند کرتے نظر آتے ہیں اور اس دوران ظاہر جعفر گھر کے فرسٹ فلور کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر گراونڈ فلور پر آتا نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں ٹرانسکرپٹ کے مطابق ظاہر جعفر دوڑ کر نور مقدم کو پکڑ کر گیٹ پر بنی کیبن میں بند کرتا ہے اور مرکزی ملزم، نور مقدم کا کیبن کھول کر موبائل فون چھین لیتا ہے۔
مزیدپڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر
ٹرانسکرپٹ کے مطابق ظاہر جعفر، نور مقدم کو کیبن سے نکال کر گھر کے اندر زبردستی گھسیٹ کر لے جاتا ہے۔
ٹرانسکرپٹ کے مطابق 20 جولائی 8 بجکر 6 منٹ پر تھراپی ورکس کی ٹیم گھر کے بیرونی گیٹ سے اندر آتی ہے اور 8 بجکر 42 منٹ پر گھر کے اندورنی دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔
علاوہ ازیں ٹرانسکرپٹ کے مطابق 8 بجکر 55 منٹ پر تھراپی ورکس کی ٹیم ایک زخمی کو گھر سے باہر گیٹ کی طرف لے جاتے نظر آتی ہے۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔
وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر
چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔
ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔
مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔
چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد
کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔
دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔
تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔
25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع
اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔
جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
بعدازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔