سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا نیب قانون میں ترمیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے نومنتخب صدر محمد احسن بھون نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں حالیہ ترمیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے تقرر کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احسن بھون کے زیر صدارت ایس سی بی اے کی نومنتخب 24ویں ایگزیکٹو کمیٹی کے پہلے اجلاس میں متفقہ طور پر سخت الفاظ میں قرارداد منظور کی گئی جس میں آئین کے آرٹیکل 175 ’اے‘ کو ختم کرنے کا کہا گیا جس کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
قرارداد میں بار کے نمائندوں کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد ایک نئی شق شامل کرکے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی جس کا مقصد ’ماہر ججز‘ کا تقرر ہے۔
اس سے ہر قسم کی اقربا پروری یا امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور معززین کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
مزید پڑھیں: ایک ماہ سے کم عرصے میں نیب قوانین میں ترامیم کا نیا آرڈیننس جاری
9 ستمبر کو ایس سی بی اے کمپلیکس میں منعقدہ وکلا کنونشن میں جے سی پی پر ججز کی اجارہ داری کو کم کرنے اور برابری کی بنیاد پر دیگر اسٹیک ہولڈرز بالخصوص بار کی نمائندگی بڑھانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 ’اے‘ میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا۔
جمعہ کو ایس سی بی اے اجلاس نے بھی واضح طور پر قومی احتساب آرڈیننس میں ترامیم کے سلسلے کو مسترد کر دیا اور حالیہ ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے ایس سی بی اے کی ایک کمیٹی بنانے کی پیشکش کی جس میں حکمراں اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ احتساب قانون میں بہتری لانے کے لیے سفارشات پیش کریں۔
احسن بھون نے کہا کہ کمیٹی بنانے کا خیال وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دیا تھا۔
انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے وزیر اطلاعات سے کہا ہے کہ احتساب کا قانون کسی شخص کے لیے مخصوص ہونے کے بجائے، مخالفین کو نشانہ بنائے بغیر اتفاق رائے پر مبنی ہونا چاہیے۔
احسن بھون نے کہا کہ تاہم افسوس کے ساتھ حکمراں جماعت، اپوزیشن پر خنجر چلانا چاہتی ہے جب کہ اپوزیشن ریاستی امور کو چلانے میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد نیب کیسز کی حیثیت غیر یقینی سے دوچار
ایس سی بی اے نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) میں ترمیم کرنے کا فیصلہ بھی کیا تاکہ متاثرہ فریقین کو نئے بینچ کے سامنے اپیل کا حق دیا جائے اور اپیل پر فیصلہ آنے تک اصل فیصلہ معطل رہے گا۔
آرٹیکل 184 (3) کا استعمال ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چیف جسٹس کے عہدے پر ہونے کے دور میں ازخود اختیارات کے کثرت سے استعمال پر قانونی برادری کے درمیان تشویش پائی جاتی ہے۔
2018 میں پاکستان بار کونسل کے ایک رکن نے کونسل کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران آئین کے آرٹیکل 184 (3) کو جس طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اس سے ریاست کے دیگر اداروں کے مقابلے میں عدلیہ کو بااختیار بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ مفاد عامہ کی عرضی کے تحت آرٹیکل 184 (3) کا حد سے زیادہ استعمال بعض اوقات متاثرہ فریق کی قسمت پر مہر لگا دیتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب مکمل طور پر ایک مختلف مسئلے کو ضمنی کارروائی میں پیش کیا گیا ہو اور عدالت کے نوٹس پر بالکل مختلف پہلو سامنے آیا ہو۔
ایس سی بی اے اجلاس نے عدالت عظمیٰ پر بھی زور دیا کہ وہ نظرثانی کی درخواستوں میں وکیل تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترمیم کرے۔
ایسوسی ایشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ تمام ریاستی ادارے قابل احترام اور باوقار ہیں لیکن انہیں اپنے متعین کردہ پیرامیٹرز/ڈومینز کے اندر کام کرنا چاہیے جیسا کہ آئین میں درج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم ریاستی اداروں میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے مجموعی طور پر بڑھتے ہوئے تاثر کو زائل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایس سی بی اے نے آمرانہ یا جابرانہ ڈیزائن کو پسپا کرنے اور تمام جمہوری عناصر کی حمایت کرنے کا بھی عزم کیا۔
مزید پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک موجودہ چیئرمین کام جاری رکھیں گے، فروغ نسیم
اجلاس میں ادارے کی بہتری، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بینچ اور بار کے درمیان ہم آہنگی کے تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے کیس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لے اور اسے بہتر بنائے۔
ایس سی بی اے نے اسٹیک ہولڈرز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں معاشرے کے تمام طبقات کے دانشوروں کو مدعو کیا جائے تاکہ موجودہ قومی اور سماجی و سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔