• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مغرب کی طرح پاکستان کے پاس افغانستان سے دوری اختیار کرنے کا آپشن نہیں، معید یوسف

شائع November 2, 2021
مشیر قومی سلامتی معید یوسف نیوز کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
مشیر قومی سلامتی معید یوسف نیوز کانفرنس کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ مغرب کی طرح پاکستان کے پاس افغانستان سے دوری اختیار کرنے کا آپشن نہیں ہے۔

وہ اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جہاں پاکستان اور ازبکستان نے مشترکہ سیکیورٹی کمیشن کے قیام کے پروٹوکول پر دستخط کیے جس کے بعد کمیشن کا افتتاحی اجلاس بھی ہوا۔

معید یوسف نے بتایا کہ پاکستان اور ازبکستان کی افغانستان کے معاملے میں پوزیشن ایک ہے اور دونوں ممالک کا یہی مؤقف ہے کہ افغان عوام کی خاطر تمام دنیا کو افغان حکومت سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ پاکستان کو بعض اوقات افغانستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس مؤقف کے پیچھے دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ ’یہ 10 ہزار میل دور بیٹھی مغربی دنیا کے لیے آسائش ہو سکتی ہے لیکن ہمارے پاس افغانستان سے دوری اختیار کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو اس مشغولیت میں افغانستان سے تعاون اس طرح کرنا چاہیے کہ وہاں کوئی انسانی بحران پیدا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سردیاں آرہی ہیں، وہاں خوراک کا مسئلہ ہے، لوگوں کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی امداد کیلئے عالمی برادری اپنی کوششیں تیز کرے، پاکستانی سفیر

معید یوسف کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کا یا کسی اور کا مسئلہ نہیں یہ عام افغانوں کا مسئلہ ہے، 4 دہائیوں سے افغانستان جنگ کی صورتحال میں ہے اور وہاں ہونے والی جنگ سے براہ راست نقصان پاکستان کا بھی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جب افغانستان میں استحکام کی بات کرتے ہیں تو ہم افغانوں کے حق کے لیے اور اپنی سلامتی کے لیے یہ کہتے ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم دنیا کو یہ بات باور کرائیں‘۔

کمیشن کے اجلاس کی تفصیلات

نئے قائم کیے گئے کمیشن کی تفصیلات اور کن امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، کے بارے میں معید یوسف نے کہا کہ اس میں بین الاقوامی جرائم، منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی کے خلاف تعاون اور ڈزاسٹر مینجمنٹ جیسے شعبوں میں باہمی استعداد کار بڑھانے کے معاملات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان امور کو ورکنگ گروپس کی شکل میں ترقی دی جائے گی اور پچھلے معاہدوں کو بھی ’دوبارہ زندہ‘ کیا جائے گا اور اسی طرح آگے بڑھایا جائے گا۔

مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی توجہ جیو اکنامکس پر ہے، پاکستان کا جغرافیہ نہایت اہم ہے تاہم ماضی میں ہم اس سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے جیسے ہمیں اٹھانا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وسطی ایشیا کے ممالک، جن میں ازبکستان ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، اس سے ہماری ایسی مشغولیت نہیں رہی جیسی ہونی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ازبکستان، پاکستان اور افغانستان راہداری ہمارے جیو اکنامکس نظریے کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان میں پہلے بھی بہت سے معاہدے ہوئے ہیں تاہم بدقسمتی سے وہ اس طرح آگے نہیں بڑھ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا، روس

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے ہم آگے لے کر جائیں گے اور انہیں دوبارہ بحال کریں گے‘۔

قومی سلامتی ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ معید یوسف نے ازبکستان کی سلامتی کونسل کے سیکریٹری لیفٹیننٹ جنرل وِکٹر مخمودوف سے ملاقات کی جو پاکستان کے تین روزہ دورے پر ہیں۔

دستخط شدہ پروٹوکول کے حوالے سے پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس میں ’سیکیورٹی سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور کا وسیع پیمانے پر احاطہ کیا گیا اور پاکستان کے قومی سلامتی ڈویژن اور ازبکستان کی سیکیورٹی کونسل کے درمیان رابطوں کا طریقہ کار قائم کیا گیا‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’افتتاحی اجلاس کے دوران دونوں فریقین نے نئے تشکیل شدہ مشترکہ کمیشن کے مختلف پہلوؤں اور کمیشن کو مؤثر اور باہمی طور پر فائدہ مند بنانے کے لیے آگے بڑھنے کے طریقے پر تبادلہ خیال کیا‘۔

معید یوسف نے کہا کہ وسطی ایشیا پاکستان کے لیے ایک ترجیح ہے۔

علاقائی امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں

خطے میں امن اور ترقی کے حصول میں پاکستان کو کن رکاوٹوں کا سامنا ہے، اس سوال کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ’میرے خیال میں خطے کی رکاوٹیں آپ کے سامنے ہیں، اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے، ایک طرف بھارت ہے، بدقسمتی سے وہاں کے حکومتی رویے اور نظریے کی وجہ سے میں نہیں دیکھ رہا کہ یہ عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لیے کیسے آگے بڑھے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ تمام خطوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہوگی اگر کوئی بڑا ملک بھارت کے جیسے راستے پر چلنا شروع کردے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا نے بدقسمتی سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ بھارت سے اس طرح بات نہیں کر رہی جس طرح اسے کرنی چاہیے تھی‘۔

مشیر قومی سلامتی نے رکاوٹ کے بجائے ایک ’موقع‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے تو یہ رابطے کی راہداری کے طور پر ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے۔

مشیر قومی سلامتی سے چین-پاکستان اقتصادی راہداری اتھارٹی کے چیئرمین خالد منصور کے تبصروں کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جنہوں نے گزشتہ ماہ الزام لگایا تھا کہ امریکا اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ انہوں نے خود خالد منصور سے اس معاملے پر بات کی تھی اور ’ہم نے تصدیق کی کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ’واضح مؤقف‘ ہے کہ دنیا جو چاہے گی وہ کرے گی لیکن پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کے اہداف کو پورا کیا جائے، کسی بھی کمزوری کو دور کیا جائے اور قوتوں پر مزید کام کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024