ٹی ایل پی نے فرانسیسی سفیر واپس بھیجنے کا مطالبہ نہیں کیا، مفتی منیب الرحمٰن
مفتی منیب الرحمٰن نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مطالبات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر کہا گیا فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے کے مطالبات ہیں جو سراسر جھوٹ تھا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن نے ٹی ایل پی سے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ مطالبہ تھا کہ حکومت کے مجاز اور سنجیدہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، جس کے پیچھے ان کے پاس ریاست اور حکومت کی طرف سے فیصلہ کرنے کا پورا پورا اختیار ہو، اس لیے تحریک لبیک پاکستان اور اہلسنت کے لوگ ڈسے ہوئے تھے کہ صبح معاہدہ کیا جاتا اور شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر کہا جاتا کہ اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ٹی ایل پی مظاہرین نے جی ٹی روڈ کھول دیا، سعد رضوی کی رہائی تک وزیر آباد میں دھرنا جاری
انہوں نے کہا کہ ہمیں حیرت ہے کہ قرآن سے بھی بڑھ کر کوئی بڑا ہوسکتا ہے، اللہ نے فرمایا کہ عہد پورا کرو اور آپ سے پوچھا جائے گا اور اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ یہ منافقانہ شعار ہے جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، کسی بات کا امین بنایا جائے تو خیانت کرے اور معاہدہ کرے تو دھوکا دے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ جو باتیں طے ہورہی تھیں اس پر بھی ٹی وی پر جھوٹ بولاجاتا کہ ان کا مطالبہ ہے فرانسیسی سفارت خانہ بند کرو، فرانسیسی سفیر کو واپس بھیج دو، یورپی یونین سے تعلقات توڑ دو، یہ جھوٹ تھا، سراسر جھوٹ اور کذب تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت کے لوگ عوام میں جھوٹ بولنا شروع کردیں تو پھر کسی پر اعتماد کیسے قائم ہوں، لہٰذا ہمیں اسی صورت بات کرنا ممکن تھا کہ جب ذمہ داری قبول کی جائے، معاہدہ ہوجائے تو اس پر عمل درآمد کی پوری پوری ضمانت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئی ذاتی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، اس کوشش کے پیچھے کوئی ذاتی مقصد اور مفاد نہیں ہے، ہم اخلاص کے ساتھ یہاں سے گئے اور 12،12 گھنٹے کام کیا۔
مذاکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک میراتھن دانشورانہ مشق تھی، جس سے ہمیں گزرنا پڑا اور دوسرے سیشن بھی کیے لیکن جو لوگ منظر پر اپنی کارستانیاں دکھا رہے تھے، ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘
انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا پیشہ ورانہ طور پر بڑی مہارت کا دعویٰ کرتا ہے، بڑی پاتال سے خبرلاتا ہے اور وہ بھی اس سے بے خبر رہا، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عمل کے دوران جو سبوتاژ کیا جاتا ہے، اس سے یہ کارروائی بچ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹی ایل پی کی قیادت سے ملاقات کی، ان کے ساتھ ماضی میں 4، 5 معاہدے کرکے پھر اس کی خلاف ورزی کی گئی، دھوکا دیا گیا، ان کی تعمیل نہیں کی گئی، وہ اتنے ڈسے ہوئے تھے کہ کسی پر اعتماد کرنے کے لیے وہ ذہنی اور فطری طور پر تیار ہی نہیں تھے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ان سے زیادہ ان کے پیچھے عوام تھے کیونکہ میڈیا پر حکومت کے نادان دوست حکومت کی رٹ کی دھمکیاں دے رہے تھے، انہیں یہ احساس ہونا چاہیے تھا کہ ان کے پاس بڑی سے بڑی دھمکی موت کی ہوسکتی ہے اور جنہوں نے غلامی رسولﷺ میں موت کی تمنا پال رکھی ہو، ان کو کس چیز سے ڈراؤگے۔
انہوں نے کہا کہ جن کا نعرہ ہوکہ غلامی رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے تو ان گیدڑ بھبکیوں اور دھمکیوں سے ان کو ڈرایا نہیں جاسکتا، یہ ان کی حماقت، نادانی اور فرعونیت تھی اور طاقت اقتدار پر کبر، عجب اور تکبر تھا پھر ایک وقت آتا ہےجب یہ سارے حربے آزمالیے جاتے ہیں تو پھر معقولیت کو راستے مل جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے کیا کہ معقولیت کے لیے راستہ نکلا، ہم نے بے پناہ دعائیں مانگی تاکہ یہ مسئلہ حل ہو، لبرل کہتے ہیں کہ حکومت کی رٹ کہاں گئی، میڈیا پر نوجوان لوگ بیٹھ گئے ہیں، تو لال مسجد کے آپریشن کی رات تک یہ لوگ کہتے تھے کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے، دہشت گردوں سے کیوں نہیں نمٹا جارہا ہے لیکن رات کو افسوس ناک آپریشن ہوا تو صبح وہی مخالف ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کے دشمن ہوتے ہیں اور حکومت کے صفوں میں ہوتے ہیں، اگر یہ دوست ہوتے ہیں تو نادان ہوتے ہیں، اس لیے کہا جاتا ہے نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی سے ’امن‘ معاہدہ کن شرائط پر؟ تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر سیاستدانوں، صحافیوں کی تنقید
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نیک نیتی سے کام کیا، جب جذبات 90 ڈگری پر ہوں تو ان کو تحمل میں لانا کوئی آسان کام نہیں ہے، پھر ہم نے 60 سالہ دینی میدان میں جو زندگی تھی اس کو داؤ پرلگایا۔
مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہم نے ملک کے مفاد، ریاست، اسلام اور انسانی جانوں اور آبرو کی حرمت کے مفاد میں کیا، معاملات آخر طے پاگئے، اسی لیے میں نے کہا تھا یہ کسی شکست یا فتح نہیں ہے، ہم تکبر میں مبتلا نہیں ہیں، پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں اپنے گھروں دو رکعتیں شکرانہ پڑھیں اور کوئی تعلی، تکبر اور ایسےجذبات کو دلوں سے نکال لیجیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکمت، تدبر، تدبیر، فراست، عقل مندی، دانش مندی اور جوش پر غلبے کی فتح ہے اور معاہدہ ہوچکا ہے، نتائج اور عمل سے سب کو پتہ چل جائے گا کیونکہ عمل کی آواز الفاظ کی آواز سےبلند ہوتی ہے، قیادت کو اتنے دنوں سے بیٹھے جذباتی لوگوں کو منانا آسان نہیں تھا، دو راتوں کوجاگنے کے بعد پھر ہم نے اسلام آباد سےموٹروے کے ذریعے سفر کیا اور وزیرآباد آئے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ کل شام سے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے، اس سے ہمیں آگاہ کیا جارہا ہے، اس لیے ابھی تک علامات اور آثار یہ ہیں کہ حکومت نے اس کو تسلیم کیا اور من وعن عمل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جن پر ملک کی سلامتی کی ذمہ داری ہے، ان کو بھی پتہ ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، لہٰذا وہ تیار ہوئے اور سڑک کھل گئی اور برابر میں پارک میں منتقل ہوگئے اور معاہدے میں طریقہ کار بھی تیار کیا ہے، اس کاآغاز ہوگیا ہے اور جلد سنیں گے کہ وہ پارک سے بھی دھرنا ختم کرکے چلے گئے ہیں اور ترتیب پر عمل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دعا کرتا ہوں جنہوں نے اتنی بڑی ذمہ داری قبول کی ہے، انہیں اپنے قول، قرار، زبان، تحریر اور دستخط کا پاس رکھنا ہوگا، یہ سب کچھ ہم نے پاکستان، اسلام، حکومت اور ریاست کے مفاد میں کیا، انسانی جان اور مال کی آبرو اور حرمت کے لیے کیا۔
صحافیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو لبرل حکومت کو جوش دلا رہے ہیں، حکومت کی کشتی ڈھولنے لگی تو اس سے سب سے پہلے چھلانگ لگانے والے یہی ہوں گے، ان کو اس سےپہلے ایک کشتی میں دیکھا، پھر دوسری کشتی میں اور آج اس کشتی میں ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت کی نئی ٹیم کے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے پاکستانی تھے، ہمارے اکابر اور بزرگوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، ہم سے زیادہ کوئی پاکستان کا وفادار نہیں ہے، ہم سے زیادہ کوئی محب وطن نہیں ہے، ہمیں کوئی حب الوطنی نہ سکھائے، یہ جو بغض الوطن ہیں ان کا علاج ضروری ہے اور اس ملک کو ان کی شرارتوں سے پاک کرنا ضروری ہے اور دینی طبقات کو یکجا ہونا چاہیے۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ آپ بہت جلد تحریک لبیک پاکستان کو آئینی اور قانونی جماعت کی حیثیت سے میدان عمل میں دیکھیں گے، جب ٹی ایل پی نے کہا اس مسئلے کو اسمبلی میں لے جاؤ تو کیا یہ آئین اور قانون کی پابندی ہے یا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ احتجاج کے ایک میثاق بنایا جائے جس کا اطلاق سب پر یکساں ہو، یعنی آپ کریں تو واہ واہ اور میں کروں تو یہ کیسے ہوگیا، یہ نہیں ہونا چاہیے اور اس کو نہیں مانا جائے گا۔