• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’ماضی میں پی ٹی آئی نے تحریک لبیک کی حمایت کی، ہم نے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا‘

شائع November 1, 2021
شہباز شریف نے کہا کہ اس حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی— تصویر: ڈان نیوز
شہباز شریف نے کہا کہ اس حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی— تصویر: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی بھرپور حمایت کی لیکن ہم نے اس سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا۔

ڈیرہ غازی خان میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کا رویہ یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں غداری، بھارتی ایجنٹ کا سرٹیفکیٹ دے دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی ٹی ایل پی کے دھرنوں میں عمران خان چیخ چیخ کر ان کی حمایت کا اعلان کرتے تھے اور شاہ محمود قریشی نے باقاعدہ دھرنوں میں شرکت کی بلکہ اس زمانے میں پی ٹی آئی نے ان کے دھرنوں کی مکمل حمایت کی تھی اور جو حکومتی، عوامی کاموں میں خلل پڑا وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، قومی سلامتی کمیٹی

انہوں نے کہا کہ تاہم ہم نے اس مرتبہ اور نہ ماضی قریب میں جب بھی ٹی ایل پی نے اپنے مطالبات کے لیے لانگ مارچ کیا یا دھرنے دیے ہم نے اس پر سیاست نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پرسوں بھی یہی بیان دیا تھا کہ جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے اسے بیٹھ کر میز پر حل کرنا چاہیے، ہم اس سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ پورا پاکستان اس سے سبق سیکھے اور آئندہ کے لیے بہتر اقدامات اور فیصلے کرے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں اطمینان ہے کہ ہم نے جنوبی پنجاب کی خدمت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ موقع دیا تو ہم نواز شریف کی قیادت میں جنوبی پنجاب کو وسطی پنجاب کے ہم پلہ لے کر آئیں گے۔

مفاہمت کی سیاست کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے مفاہمت کا بادشاہ کہا ہے مجھے، تو بادشاہ تو بار بار جیل نہیں جاتا بلکہ وہ تو جیل جاتا ہی نہیں۔

پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شمولیت سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، کوئی چیز بھی انہونی نہیں ہوتی، پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم ہے جو اس قسم کے فیصلے کرنے کا مجاز ہے اور اگر پی ڈی ایم مشترکہ طور پر فیصلہ کرے تو پوری پی ڈی ایم اس فیصلے کے ساتھ چلے گی۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ البتہ پارلیمان میں میرا پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے رابطہ رہتا ہے اور ان کی مہربانی ہے کہ پارلیمان میں وہ مکمل تعاون کرتے ہیں جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔

پی ڈی ایم کے مستقبل میں انتخابی اتحاد بننے کے امکان کے بارے میں شہباز شریف نے کہا کہ سیاست میں ایک دائرے میں رہ کر ہر چیز ممکن ہے لیکن فی الحال اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، البتہ اس موضوع پر بات چیت اور مشاورت ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب وقت آئے گا تو اس پر پی ڈی ایم میں مشاورت کریں گے اور اگر فیصلہ ہوا تو اس کی روشنی میں پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ بھرپور مشاورت کی جائے گی لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔

بلاول بھٹو کے بیان پر انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں اراکین اسمبلی سے مشاورت اور ان کی دلچسپی کے ساتھ منصوبے لگائے گئے اور عوام کی خدمت کی گئی۔

لانگ مارچ کے بارے میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سمجھے گی کہ اب مہنگائی کے خلاف اور حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف لانگ مارچ کا وقت آگیا ہے تو اس پر مشاورت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار، نوٹیفکیشن جاری

ان کا کہنا تھا اس حکومت نے ان ساڑھے 3 برسوں میں بہت ظلم کیا ہے، نہ صرف وعدوں سے بے وفائی کی بلکہ دوسری انتہا پر چلے گئے اور دنِ رات ریاست مدینہ کا نام لینے والوں نے اس کے بالکل برعکس کام کیا اور آج پاکستان کی معیشت وہاں پہنچ گئی ہے کہ خوف آتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اسے کس طرح بحال کرسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور اس میں سب کو مل کر اس میں حصہ ڈالنا پڑے گا۔

ڈالر سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مئی 2018 میں جب ہماری حکومت کی مدت ختم ہوئی تو اسے 105 روپے پر رکھا جاسکتا تھا، اگر 20، 20 گھنٹوں کے لوڈ شیڈنگ ختم کی گئی، 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی گئی تو یہ جنوں نے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی کابینہ نے وہ کام کیا تھا جو 74 سال میں نہیں ہوسکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں چینی 52 روپے فی کلو، آٹا 38 روپے میں دستیاب تھا اور رمضان میں سستا آٹا ملتا تھا جبکہ ہر جگہ رمضان بازار موجود تھے، سبزیاں سستی تھیں، دودھ اور انڈے غریب آدمی کی پہنچ میں تھیں۔

انہوں مزید کہا کہ یہ سب ایسے ہی ممکن نہیں تھا بلکہ ایک مصمم منصوبہ بندی سے ہم چلتے تھے، نصف قیمت پر کسان کو کھاد ملتی تھی جو آج دگنی تگنی ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی پر عائد پابندی ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں، وزیراعظم

شہباز شریف نے کہا یہ جو پلان آپ کے سامنے ہے اس سے بہتر پلان سامنے لے کر آئیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی 20 اور ٹیسٹ میچ کرکٹ کے سلسلے ہیں لیکن سیاست ایک سنجیدہ شعبہ ہے، کرکٹ میں محنت کے ساتھ خوش قسمتی کام کرتی ہے لیکن سیاست میں سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے، جتنی سنجیدگی سے ہم نے کام کرنا تھا کیا لیکن آئندہ آنے والے دنوں میں حکومت کو کسی لحاظ سے کوئی جگہ نہیں دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج چونکہ انہیں آگے کا وقت خطرناک اور خراب دکھائی دے رہا ہے تو چاہے وہ مالم جبہ ہو، بی آر ٹی ہو، بلین ٹری سونامی درخت ہو، چینی، گندم کا اسکینڈل ہو تو ان سے بچنے اور اپنے آپ کو این آر او دینے کے لیے حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کہتا تھا کہ میں مر جاؤں گا این آر او نہیں دوں گا اس نے اپنے آپ کو اور اپنی کابینہ کو این آر او دے دیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024