عمران خان نے پاکستان کو جس حالت پر پہنچایا ہے دوبارہ اٹھانا چیلنج ہے، مولانا فضل الرحمٰن
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کو جس حالت پر پہنچایا ہے اب وہاں سےاٹھانا کسی کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔
ڈیراغازی خان میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج یہاں ناکام اور نااہل حکومت کی ناکام کارکردگی کے حوالے سے تقریریں ہوئیں، یہ آواز آج نہیں اٹھی ہے،25 جولائی 2018 پاکستان کی جمہوری اور پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کی مدت پوری کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا فضل الرحمٰن
ان کا کہنا تھا کہ میں نے 26 جولائی کو اسلام میں جمع ہوئے تو کہا تھا یہ الیکشن ناجائز اور دھاندلی ہے اور ہمیں کسی قیمت پر دھاندلی کی پیداوار حکومت قابل قبول نہیں ہے، آج ہماری آواز گلی گلی اور کوچے کوچے پہنچ چکی ہے۔
وفاقی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے وہ ناجائز تھے لیکن ناجائز ہونا ان کے لیے کوئی عیب نہیں ہے اور اب وہ نالائق بھی ہیں، وہ نااہل بھی ثابت ہوئےہیں۔
انہوں نے کہا کہ متمدن دنیا میں ریاست کا دار ومدار اس کی مستحکم معیشت پر ہوا کرتی ہے، جس ملک اور جس ریاست کی معیشت گرجاتی ہے پھر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، سوویت یونین کی مثال سب کےسامنے ہے۔
ان کا کہنا تھا رشین فیڈریشن ایک سپرو پاور ریاست تھی لیکن جب اس کی معیشت گر گئی تو پھر سوویت یونین اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا اور آج پاکستان کا کیا حشر کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارا حکمران جہاں جاتا ہے تو بھیکاری کی طرح کھڑا ہوتا ہے، میرا ناجائز حکمران جس انداز کے ساتھ دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے لیکن اس سے شرم نہیں آتی مگر ہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
'آج ملک کا دیوالیہ نکال دیا گیا ہے'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے ملک کا دیوالیہ نکالا ہے، آج پاکستان سالانی ترقیاتی تخمینے کے حوالے سے صفر سے نیچے چلا گیا، آج ہندوستان کی سالانہ ترقی کا تخمینہ 7 اور 8 سے زیادہ ہے، چین کی ترقی کا سالانہ تخمینہ 9 فیصد سے زیادہ، بنگلہ دیش کی ترقی کا تخمینہ 6 فیصد سے زیادہ ہے اور 7 فیصد تک چلاجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خبردار کیا تھا، افغانستان سے متعلق پاکستان اپنی پالیسی میں سنجیدگی لے آئے، مولانا فضل الرحمٰن
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے ملک کی سالانہ پیداوار مجموعی شرح ساڑھے 5 فیصد پر چھوڑی تھی اوراگلے سال کے لیے ساڑھے 6 فیصد کا ہدف مقرر کیا تھا، کم ازکم یہ تو بتایا جاتا کہ نواز شریف سے اچھی حکومت کر رہے ہیں، حالانکہ تم نے اس کو بدنام کیا، الزامات لگائے اور کرپٹ کہا اس لیے تمہیں ان سے اچھی کارکردگی دکھانی تھی لیکن تم معیشت کو صفر پر لائے ہو۔
انہوں نے کہا کہ میری جنگ یہ ہے اگر حکومت ہوگی تو عوام کے ووٹ کی بنیاد پر ہوگی لیکن اگر ووٹ چوری کرکے اپنا مرضی کے نتائج مرتب کرکے ملک پر اس طرح جابر اور ناجائز حکمران مسلط کیے جائیں گے تو بغاوت کے لیے سب سے پہلے ہم نکلیں گے اور ان حکمرانوں کو ہم چیلنج کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں آج کسان رو رہا ہے، آج ڈاکٹر رو رہا ہے، وکیل احتجاج پر ہے، اسکول کا استاد احتجاج پر ہے، جہاں ایک کروڑ نوکریوں کی امید دلائی تھی وہاں 3 کروڑ افراد کو بے روزگار کیا گیا اور نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بنے ہوئے 74 سال ہوئے ہیں اور اب تک پاکستان کے مجموعی ملازمین ایک کروڑ تک نہیں پہنچے لیکن اس نے کہا ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا تواس پر اعتبار کیسے کیا۔
'یہ ملک کو نیب کے ذریعے چلا رہے ہیں'
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کو نیب کے ذریعے چلا رہےہیں، وہ چور ہے اس کے خلاف کیس کرو، نیب کا فلسفہ ایک آمر کا دیا گیا ہے، نیب فعال ہوتا ہے تو سمجھو کہ وہ آمریت کی علامت ہے اور اس ملک پر آج بھی آمرانہ حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے جبر سے آج پیسے کی گردش رک گئی ہے، ملک کی معیشت جمود کا شکار ہوگئی ہے، ایک زمانہ تھا جب بھارت میں بی جے پی کی حکومت تھی اور واجپائی وزیراعظم تھا تو وہ بس میں بیٹھ کر لاہور آیا اور مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آج بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور مودی وزیراعظم ہے لیکن مودی کا آپ کے ساتھ آپ رویہ کیا ہے، صرف اس لیے کہ اس وقت آپ کی معیشت مضبوط تھی اور پاکستان سے تجارت کرنا چاہتا تھا، آج وہ آپ کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں اور آکے وجود کا دشمن ہوگیا ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کا ملک میں فی الفور شفاف انتخابات کا مطالبہ
صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ عمران کو اس ایجنڈے پر لایا گیا تھا کہ کشمیر کو بیچنا ہے تو تم نے کشمیر کو بیچ دیا ہے، آج کشمیریوں کا خون ہو رہا ہے لیکن پاکستان سے ان کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے، ہم نے 70 سال کشمیریوں کے خون پر سیاست کی ہے لیکن آج ہم نے کشمیریوں کو تن تنہا چھوڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان میں چین نے 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور سی پیک کا عظیم منصوبہ پاکستان میں آیا، جس کے ساتھ بجلی پیداوار، صنعتی علاقے، پاکستان کی پیدواری صلاحیت وابستہ تھی لیکن ایجنڈے دیا گیا سی پیک کو ناکام بنانا ہے، آج جس طرح پاکستان کی ترقی کے سفر کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے، آج چین ہم سے ناراض ہے۔
'پورا ایشیا ترقی کر رہا ہے پاکستان سے کوئی تجارت کرنے کو تیار نہیں'
انہوں نے کہا کہ پورا ایشیا معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے لیکن کوئی ملک پاکستان کے ساتھ تجارت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں ملک کے اداروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ واقعتاً پاکستان کے لیے وفادار ہیں اور پاکستان کے لیے آپ کے ارادے مشرقی پاکستان جیسے نہیں تو پھر ایسے ناجائز حکمرانوں کی پشتیبانی کرنا کسی قیمت پر بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری سے تعبیر نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ بڑے واضح فیصلوں کی طرف جانا ہوگا، ہم نے ابھی اس ملک کو بچانا ہے، پاکستان کو عمران خان جس حالت تک پہنچا چکا ہے، دوبارہ اس ملک کو کیسے اٹھاؤگے یہ شہباز شریف کے لیے بھی چیلنج ہے اور ہم سب کے لیے بھی چیلنج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بڑے چیلنج کو قبول کرنا ہے اور اس چیلنج کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ امریکا نے اسپیس مانگا تھا جو دے دیا گیا اور پاکستان اس وقت امریکا کی کالونی کا کردار ادا کر رہا ہے اور تم کہتے ہو ایبسلیوٹلی ناٹ، کس ملک کے لیے آپ ان کی فضائی قوت کو راستہ دینا چاہتے ، افغانستان پر بمباری کرنے کے لیے، اجازت دی جارہی ہے، یہ کون سی سیاست ہے۔
ان کا کہنا تھا امریکا اس وقت افغانستان میں شکست خوردہ کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اب امریکا کو سپر پاور نہیں کہا جاسکتا۔
'اب ملک میں عام انتخابات ہوں گے'
ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کا مقابلہ عوام میں کریں گے اور اب الیکشن ہوں گے وہ الیکشن بلدیاتی نہیں بلکہ عام انتخابات ہوں گے، یہ بلدیاتی انتخابات کچھ نہیں ہیں صرف عوام کی توجہ ہٹانے اور مصروف رکھنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پر پی ڈی ایم اپنا مؤقف اپنائے گی اور مضبوط منصوبہ پیش کریں گے اور اب یہ شکست کھا چکے ہیں، پی ڈی ایم کی تحریک آگے بڑھے گی اور قوم کے شانہ بشانہ رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتیں قیادت سے لے کر کارکن تک عام آدمی کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑی ہے اور ہر محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی اور حکمرانوں کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔