ٹی ایل پی کا احتجاج جاری، وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مسلسل احتجاج کے باعث جمعہ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ کالعدم تنظیم کی غیر قانونی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کی روشنی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا احتجاج جاری، کارکنان گوجرانوالہ کی جانب رواں دواں
فواد چوہدری کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنان جمعرات کی صبح 'کاموکی' سے نکل کر گوجرانوالہ شہر کے قریب پہنچ چکے ہیں اور لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں۔
وزیر اطلاعات نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں ’فسادی ٹی ایل پی‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے واضح کیا کہ جب تک کالعدم جماعت کے لوگ سڑکیں خالی نہیں کرتے اور پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے والے مجرموں کو اداروں کے حوالے نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے اپیل کی کہ محب وطن لوگ اس احتجاج سے خود کو لاتعلق کریں اور اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور ریاست کے خلاف دہشت گردی کا حصہ نہ بنیں۔
اس موقع پر ایک ٹوئٹر صارف نے ان سے سوال کیا کہ کیا تحریک انصاف کا 2014 کا دھرنا فساد کے ضمرے میں نہیں آتا تو انہوں نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں اور کالعدم جماعتوں کے احتجاج میں فرق ہوتا ہے، ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے سیاسی تحریکیں چلائی ہیں لیکن یہ تحریکیں مسلح نہیں تھیں البتہ بدقسمتی ہے کہ نام نہاد دانشور ایک کالعدم جماعت کی دہشت گردی کو سیاسی معاملہ جانتے ہیں۔
دریں اثنا وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پولیس اہلکاروں کے قتل کی مذمت کرتے کہا کہ ریاست کے پاس دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف قوانین موجود ہیں۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پولیس اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کے قتل اور ٹی ایل پی یا کسی بھی گروپ کی دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی سے قانون پوری طاقت سے نمٹے گا۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے تحمل کے مظاہرے کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
یاد رہے کہ ایک دن قبل فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں مذہبی جماعت نہیں بلکہ عسکریت پسند گروپ سمجھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد مارچ، تصادم میں 4 پولیس اہلکار شہید، درجنوں زخمی
وزیر اطلاعات نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ایل پی کو ایک عسکریت پسند تنظیم سمجھا جائے اور اسے کچل دیا جائے گا کیونکہ اس طرح کے دیگر گروپوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور ریاستِ پاکستان نے القاعدہ جیسی بڑی دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ٹی ایل پی کو ہندوستان میں کچھ گروپوں کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کو بھی بدنام کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ٹی ایل پی 2015 میں قائم ہوئی تھی اور اس کے بعد سے انہوں نے سڑکوں پر نکلنے اور انہیں بند کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے لیکن ریاست کے صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
اسی روز وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی کہا تھا کہ کراچی کی طرح صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں 60 دن کے لیے رینجرز کو تعینات کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد، راولپنڈی کے متعدد علاقے ’ٹی ایل پی‘ مارچ کو روکنے کے لیے سیل
ان کا کہنا تھا کہ رینجرز کو پنجاب میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 4 (2) کے تحت تعینات کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ ٹی ایل پی کے رویے کے باعث انہیں عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہوگا۔
ٹی ایل پی۔پولیس تصادم
حکومت کا یہ اعلان مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد سامنے آیا جس میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہونے ہوگئے تھے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔
شدید جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ٹی ایل پی نے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے اسلام آباد کی جانب مارچ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) پنجاب راؤ سردار نے بتایا تھا کہ کالعدم تنظیم کے مشتعل ہجوم نے چار پولیس اہلکاروں کو شہید اور 263 کو زخمی کیا۔
مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان
میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکنان خودکار ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں نے پولیس پر سیدھی فائرنگ کی، کالعدم تنظیم کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اسلحے کا استعمال سنگین تشویش کا باعث ہے۔
دوسری جانب ٹی ایل پی نے دعویٰ کیا کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں تنظیم کے 2 کارکن جاں بحق اور 41 زخمی ہوئے ہیں۔
ٹی ایل پی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی پرامن ریلی کے خلاف طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا لیکن گروپ کی جانب سے اس کے ورکرز کی ہلاکت کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوے کرکے اور ماضی کے کچھ ویڈیو کلپس پوسٹ کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
پولیس اہلکاروں کی ہلاکت میں ملوث ہونے سے انکار
اپنے بیان میں ٹی ایل پی کی مرکزی شوریٰ نے دعویٰ کیا کہ تنظیم کو 3 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے لیکن وہ پولیس وین اور مزدا ٹرک کے درمیان تصادم کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔
بیان میں عہدیداران کے اس بیان کو بھی رد کیا گیا کہ ٹی ایل پی کارکنان نے جھڑپوں کے دوران ہتھیار استعمال کیے اور اس الزام کا ثبوت طلب کیا۔