• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا بچوں کو بھی ہوسکتا ہے

شائع October 26, 2021 اپ ڈیٹ October 27, 2021
یہ انکشاف ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ انکشاف ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامات کا سامنا بالغ افراد کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی ہوسکتا ہے۔

یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس تحقیق میں بالغ افراد اور بچوں میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

اب تک بالغ افراد پر لانگ کووڈ کے حوالے سے کافی تحقیقی کام ہوا ہے مگر بچوں میں زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔

اس تحقیق میں ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

تحقیق میں ایک لاکھ 57 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ بیماری کو شکست دینے کے 3 ماہ بعد کتنے افراد کو تاحال علامات کا سامنا تھا۔

نتائج سے عندیہ ملا کہ کووڈ 19 کے 30 فیصد مریضوں کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوسکتا ہے، جن سے جسمانی، ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں شامل 6 فیصد بالغ جبکہ ایک فیصد بچے کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے تھے جبکہ 2 فیصد بالغ افراد اور 0.4 فیصد بچوں کو آئی سی یو نگہداشت یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی۔

تحقیق کے مطابق بچوں اور نوجوانوں میں خسرہ، مسلسل تھکاوٹ، کھانسی، گلے یا سینے میں تکلیف جیسی علامات نمایاں تھیں جبکہ سردرد، بخار، انزائٹی/ ڈپریشن امراض اور پیٹ درد کی شرح میں 50 سے 100 فیصد اضافہ ہوا۔

اسی طرح بالغ افراد کھانسی، بخار، سینے میں تکلیف، بال گرنا، سانس لینے میں مشکلات، سردرد اور خسرہ جیسی علامات کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

تحقیق کے مطابق چونکہ بچوں کے مقابلے میں کووڈ 19 کیسز کی شرح بالغ افراد میں 162 فیصد زیادہ ہے تو تو علامات میں فرق کی بڑی وجہ پھیپھڑوں سے جڑی علامات کا ہے اور بالغ افراد میں ہی لانگ کووڈ کی شرح 41 فیصد زیادہ ہے۔

جن افراد کو ہسپتال یا آئی سی یو میں رہنا پڑا ان میں لانگ کووڈ کا خطرہ دیگر سے زیادہ ہوتا ہے چاہے عمر جو بھی ہو۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے مگر اب تک اس عمر کے گروپ کے حوالے سے شواہد کافی نہیں تھے۔

اس تحقیق کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور medRxiv پر جاری کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024