پاک۔امریکا تعلقات کیلئے امریکی سینیٹر، عمران خان سے جوبائیڈن کی بات چیت کرانے کے خواہشمند
امریکی سینیٹر باب مینڈیز نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے کہا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن پر زور دیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے بات کریں۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئرمین نے امریکن پاکستانی پولیٹکل ایکشن کمیٹی (اے پی پی اے سی) کے بورڈ رکن ڈاکٹر طارق ابراہیم کی رہائش گاہ پر منعقدہ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب میں اس قسم کی بات چیت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے کی گئی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس طرح کی بات چیت کرنا ہمارے لیے اچھا ہوگا اور آپ جانتے ہیں ہماری جب ایسی بات چیت ہوتی ہیں تو وہ ایماندارانہ ہوتی ہیں اور اس کا مطلب یہ کہ وہ شفاف بھی ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کی فون کال کا انتظار نہیں کر رہا، وزیراعظم عمران خان
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں کہ جب کوئی معاہدہ ہوگا ہم اس پر تعلقات قائم کریں گے اور جب کوئی اختلاف ہوگا ہم اس پر بات کریں گے کہ اس اختلاف کو کس طرح دور کرسکیں۔
امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے جس میں ایک ایسا رشتہ ہے جو دوبارہ پہلے جیسا بنایا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اس پر (تعلقات) دوبارہ استوار کرسکتے ہیں تو مجھے اُمید ہے کہ ہم اسے توسیع دے سکتے ہیں، صرف پاکستان کے فوجی اور سیکیورٹی تناظر میں نہیں بلکہ بہت وسیع تناظر میں، اتنی بڑی نوجوان آبادی کے بارے میں بات کی جائے تو یہ اس معاشی حرکیات کو استوار کرنے کا زبردست موقع ہے جو ہم تخلیق کرتے ہیں‘۔
سفارتی کوششیں
امریکی صدر جوبائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کرنے سے بظاہر انکار یا گریز کو سفارتی توہین کے طور پر دیکھا جارہا تھا، یہ بظاہر دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا ایک نقطہ بن گیا ہے جس میں امریکی قانون سازوں نے بھی ہچکچاہٹ پر تنقید کی۔
مزید پڑھیں: جوبائیڈن کی پاکستان سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ حیرت انگیز ہے، امریکی سینیٹر
اگست میں فنانشنل ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے واضح کیا تھا کہ اگر جو بائیڈن ملکی کی قیادت کو نظر انداز کرتے رہے تو پاکستان کے پاس دیگر آپشن بھی ہیں۔
فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے معید یوسف نے کہا تھا کہ امریکا کے صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکا کہتا ہے کہ افغانستان سے متعلق کچھ معاملات اور کچھ طریقوں میں بناؤ اور توڑو، ہم اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ٹھیک ہے؟
معید یوسف نے کہا تھا کہ ہمیں ہر مرتبہ بتایا گیا کہ (فون کال) ہوگی، یہ تکنیکی وجوہات ہیں یا کچھ بھی لیکن واضح طور پر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر فون کال ایک رعایت ہے، اگر سیکیورٹی تعلقات ایک رعایت ہے تو پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی ہیں۔
اس وقت بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار نے کہا تھا کہ ’اب بھی بہت سے ایسے عالمی رہنما ہیں جن سے امریکی صدر نے ذاتی طور پر بات نہیں کی، وہ وقت آنے پر وزیراعظم عمران خان سے بات کریں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاکستانی قیادت کو نظر انداز کرتا رہا تو دوسرے آپشنز بھی ہیں، معید یوسف
دوسری جانب وزیراعظم نے خود بھی ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ فون کال کا انتظار نہیں کررہے، ان کا کہنا تھا کہ میں سنتا رہتا ہوں کہ صدر جوبائیڈن نے مجھے کال نہیں کی، یہ ان کا معاملہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی فون کال کا انتظار کررہا ہوں۔
بعدازاں ستمبر میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ امریکی صدر خاصے مصروف ہیں کہ انہیں کال کریں اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں۔
علاوہ ازیں 11 اکتوبر کو مڈل ایسٹ آئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے دوبارہ واضح کیا تھا کہ انہوں نے اب تک صدر جو بائیڈن سے بات نہیں کی، جس پر انٹرویو لینے والے نے اس حیران کن قرار دیا تھا۔