2020 ایشیا کے لیے گرم ترین سال رہا، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے منگل کو سی او پی 26 سمٹ سے قبل کہا ہے کہ ایشیا کو 2020 میں ریکارڈ گرم ترین سال کا سامنا کرنا پڑا اور شدید موسم نے براعظم کی ترقی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنی سالانہ رپورٹ بعنوان ’ایشیا میں موسم کے حالات‘ میں، اقوام متحدہ کی عالمی تنظیمِ موسمیات نے کہا کہ خطے کا ہر حصہ متاثر ہوا ہے۔
ڈبلیو ایم او نے کہا کہ ’2020 میں پورے ایشیا میں گرم موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچایا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا اور سیکڑوں اربوں ڈالر کی لاگت آئی جب کہ انفرا اسٹرکچر اور ماحولیاتی نظام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا‘۔
مزید پڑھیں: تحفظِ ماحول کی کوششیں اور پاکستان کے لیے مواقع
اس میں کہا گیا کہ ’خوراک اور پانی کے عدم تحفظ، صحت کے خطرات اور ماحولیاتی انحطاط بڑھنے سے پائیدار ترقی کو خطرہ لاحق ہے‘۔
یہ رپورٹ اتوار سے 12 نومبر تک گلاسگو میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس سی او پی 26 سے چند دن پہلے سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں موسمیاتی خطرات سے ہونے والے مجموعی سالانہ اوسط نقصانات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین کو 238 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اس کے بعد بھارت کو 87 بلین ڈالر، جاپان کو 83 بلین ڈالر اور جنوبی کوریا کو 24 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔
تاہم جب معیشت کے حجم پر غور کیا جائے تو تاجکستان کے لیے مجموعی گھریلو پیداوار کا اوسط سالانہ نقصان 7.9 فیصد، کمبوڈیا کے لیے 5.9 فیصد اور لاؤس کے لیے 5.8 فیصد تک متوقع ہے۔
بڑے پیمانے پر نقل مکانی
گرمی اور نمی میں اضافے سے پورے براعظم میں آؤٹ ڈور کام کے اوقات کے مؤثر نقصان کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کی ممکنہ لاگت کئی ارب ڈالرز ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری تالاس نے کہا کہ ’موسم اور آب و ہوا کے خطرات، خاص طور پر سیلاب، طوفان اور خشک سالی نے خطے کے بہت سے ممالک میں اہم اثرات مرتب کیے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ نے صاف ماحول کی فراہمی کو 'بنیادی انسانی حق' قرار دے دیا
کہا گیا کہ ’مشترکہ طور پر یہ اثرات طویل المدتی پائیدار ترقی پر ایک اہم اثر ڈالتے ہیں‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشیا میں موسم اور آب و ہوا سے متعلق بہت سے نقل مکانی ہوئی جہاں لوگ گھروں کو واپس نہیں جا سکے۔
2020 میں سیلاب اور طوفانوں نے ایشیا میں تقریباً 5 کروڑ افراد کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں 5 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔
یہ گزشتہ دو دہائیوں کی سالانہ اوسط سے کم ہے جس میں 15 کروڑ 80 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور تقریباً 15 ہزار 500 اموات ہوئی تھیں۔
گلیشیئرز کا سکڑنا
2020 میں سمندر کی سطح کا اوسط درجہ حرارت بحر الہند، بحرالکاہل اور آرکٹک سمندروں میں ریکارڈ بلندی تک پہنچ گیا۔
ایشیا اور اس کے آس پاس سمندر کی سطح کا درجہ حرارت اور سمندر کی گرمی عالمی اوسط سے زیادہ بڑھ رہی ہے جو بحیرہ عرب اور آرکٹک سمندروں کے چند حصوں میں اوسط سے تین گنا زیادہ گرم ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بلڈنگ اِن گرین: ماحول دوست مقامات کی تیاری
تبت اور ہمالیہ میں تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر گلیشیئرز ہیں جو پولر ریجن سے باہر برف کی سب سے بڑی مقدار ہے اور ایشیا کے 10 بڑے دریاؤں کا ذریعہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’گلیشیئرز میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک گلیشیئر کا حجم 20 فیصد سے 40 فیصد تک کم ہو جائے گا، جس سے خطے کے تقریباً 75 کروڑ لوگوں کی زندگی اور معاش متاثر ہوگا‘۔
ایشیا کے مینگرووز کا ایک چوتھائی حصہ بنگلہ دیش میں ہے لیکن رپورٹ میں کہا گیا کہ 1992 سے 2019 تک طوفانوں سے متاثر ملک کے مینگرووز میں 19 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔