دنیا میں پھیلتی 'توانائی کی غربت'
لوڈشیڈنگ یا توانائی کے بحران سے پاکستانی تو پہلے ہی بخوبی واقف تھے لیکن اب یورپی ممالک، چین اور بھارت سمیت دیگر ممالک کو بھی بجلی کی قلت کا سامنا ہے اور ان ملکوں کے عوام بھی جاننے لگے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کس بلا کا نام ہے۔ دنیا میں اس نئے عالمی بحران کے لیے 'توانائی کی غربت' کی نئی اصطلاح کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
توانائی کے بحران کی کیا وجوہات ہیں؟ اور اس حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ دنیا بالخصوص چین، یورپ اور ایشائی ملکوں میں مہنگی بجلی اور ایندھن کے بحران کی 4 بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ
موسمی تغیر کے نتیجے میں سردیاں معمول سے زیادہ جلدی آگئی ہیں۔ بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ موسمی صورتحال مختلف صورتوں میں توانائی کا استعمال بڑھا دیتی ہے۔ مثلاً سخت سردیوں میں لوگ اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے برقی آلات استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے توانائی کی کھپت زیادہ ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح گرمیوں میں گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایئرکنڈیشنر جیسے آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
دوسری وجہ
گرین توانائی تاحال قابلِ بھروسہ آپشن نہ بن پانا۔
تیسری وجہ
کوئلے پر گھٹتا انحصار۔
چوتھی وجہ
یورپ کا روسی گیس پر انحصار اور کوئلے کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی ایل این جی کی قیمت میں اضافہ۔
یورپی یونین میں توانائی کا بحران
یورپ کی مارکیٹ میں بعداز لاک ڈاؤن ایندھن کی طلب میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یورپ اس وقت توانائی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔
یورپ میں کاربن سے پاک ہوائی اور شمسی جیسے قدرتی ذرائع سے توانائی پیدا کرنے پر کام ہورہا ہے۔ چنانچہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے کوئلے اور گیس کے بجائے گرین توانائی پر انحصار بڑھایا جارہا ہے۔ مگر متبادل توانائی کے ذرائع بیس لوڈ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوپائے ہیں۔
یورپ نے گرین توانائی کے وسائل بڑھانے اور کاربن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئلے سے پیدا کی جانے والی بجلی پر انحصار کم کرنا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء میں یورپ نے 20 کروڑ 77 لاکھ ٹن کوئلہ پیدا کیا تھا جو 2020ء میں کم ہوکر 4 کروڑ 60 لاکھ ٹن رہ گیا۔ اس طرح کوئلے کی کان کنی میں 80 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ مقامی سطح پر کوئلے کی کان کنی کم ہونے کے بعد ایندھن کی طلب میں اچانک اضافے اور رسد میں کمی کے باعث کوئلے کی قیمت 400 فیصد تک بڑھ گئی۔
دوسری جانب یورپ گیس کی طلب پوری کرنے کے لیے روس سے آنے والی گیس پائپ لائن پر انحصار کیے ہوئے ہے۔ روسی پائپ لائن سے یورپ کو 2021ء میں 99 بی سی ایم (بلین کیوبک میٹر) گیس فراہم ہوئی حالانکہ 2019ء میں 118 بی سی ایم گیس فراہم کی گئی تھی۔ یوں 20 بی سی ایم گیس کی قلت پیدا ہوئی اور پھر اس دوران ایندھن کی طلب بھی بڑھ گئی ہے۔
یورپی یونین نے روسی گیس کمپنی گیزپروم پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے سیاسی مقاصد اور گیس پائپ لائن کی منظوری کے لیے گیس کی قلت جان بوجھ کر پیدا کی ہے۔ تاہم کمپنی کا مؤقف ہے کہ اس نے سردیوں کی وجہ سے مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے گیس کی فراہمی کم کی۔
دوسری طرف یورپی یونین میں گیس کی مقامی پیداوار بھی کم ہورہی ہے۔ ہالینڈ میں گیس کے ذخائر تقریباً ختم ہوچکے ہیں جبکہ ناروے سے گیس کی فراہمی 8.55 بی ایم سے کم ہوکر 7.9 بی ایم رہ گئی ہے۔
واضح رہے کہ یورپ میں 20 فیصد بجلی کی پیداوار گیس اور کوئلے سے ہوتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ تادمِ تحریر یورپ میں فی میگا واٹ کی قیمت اوسطاً 50 یوروز تھی جو اب کئی جگہوں پر بڑھ کر 500 تک پہنچ گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایندھن اتنا زیادہ مہنگا نہیں ہوگا۔ ایندھن کی قلت کے خطرات اور سٹے بازی کی وجہ سے اس وقت قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے مگر ان سردیوں میں یورپ کو ہر صورت مہنگے ایندھن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ واضح رہے کہ یورپ پر اس کے سیاسی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت یورپی یونین میں مشترکہ انرجی مارکیٹ قائم ہے۔ اس مارکیٹ کے تحت تمام رکن ممالک توانائی کے وسائل کو آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مستقبل میں یہ تعاون جاری رہ سکے گا؟
ایندھن کی فراہمی کے مسائل کی وجہ سے یہ تعاون ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ فرانس اور اسپین نے موجودہ نظام پر اعتراض کرتے ہوئے کمیشن میں معاملہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے پاس زیادہ تر بجلی ایٹمی ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔ فرانس یورپی ملکوں کو 10 گیگاواٹ بجلی برآمد کررہا ہے۔ مگر اب بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے فرانس مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیگر ممالک کو بجلی کی فراہمی روک بھی سکتا ہے۔ فرانس نے برطانیہ پر بریگزٹ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے بجلی کی فراہمی بند کردی ہے۔
برطانیہ میں توانائی کے بحران کا احوال
برطانیہ اگرچہ یورپی یونین سے الگ ہوچکا ہے تاہم توانائی کے بحران نے اسے بھی نہیں بخشا۔ اس کی وجوہات کچھ یکساں اور کچھ مختلف ہیں۔
برطانوی حکومت کے بزنس سیکریٹری نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے پاس ایندھن کی اضافی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ سردیوں میں طلب پورا کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت نہیں اور سردیوں میں بجلی کی فراہمی بند نہیں ہوگی۔
برطانیہ میں جنوری سے ستمبر تک گیس کی قیمت میں 250 فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں توانائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت کی حد مقرر ہے۔ جو کمپنیاں مقررہ قیمت پر بجلی اور توانائی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں وہ تیزی سے بند ہورہی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ رواں سال کے آخر تک برطانیہ میں توانائی فراہم کرنے والی 70 کمپنیوں میں سے صرف 10 کمپنیاں فعال رہ جائیں گی۔
برطانیہ میں توانائی اور ایندھن کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں 60 فیصد سے زائد بجلی گیس اور متبادل توانائی کے ذرائع یعنی پن چکیوں سے بنائی جاتی ہے، حالانکہ یورپی کمیشن نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد 30 فیصد مقرر کی ہے۔ پن چکیوں سے برطانیہ اپنی 25 فیصد بجلی حاصل کرتا ہے۔ مگر رواں سال موسمی صورتحال کے باعث پن چکیوں سے بجلی کی پیداوار 7 فیصد تک ہی محدود رہی۔
برطانیہ میں 32 فیصد بجلی گیس سے پیدا کی جاتی ہے اور برطانیہ گیس کا درآمدی ملک ہے۔ یورپ میں گیس کی قلت کی وجہ سے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں یورپی یونین کی رُکن ریاست سے آنے والی کیبل کو آگ لگنے کی وجہ سے گیس کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔
برطانیہ نے توانائی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے کوئلے کے بند پلانٹس کو دوبارہ چلانا شروع کردیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں توانائی کے بحران کی ایک وجہ بریگزیٹ بھی ہے۔ برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن نے 2016ء میں کہا تھا کہ بریگزیٹ کے بعد توانائی سستی ہوجائے گی مگر اس بحران میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
چین اور بھارت میں توانائی کے بحران کا احوال
چین اور بھارت میں توانائی اور بجلی سے جڑے مسائل کافی ملتے جلتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں توانائی کی پیداوار کا انحصار کوئلے پر ہے اور اس کی کھپت بھی باقی دنیا سے زیادہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنے کے باوجود یہ ممالک دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ درآمد بھی کرتے ہیں۔
بھارت نے عالمی منڈی میں مہنگائی کے پیشِ نظر اگست اور ستمبر میں کوئلے کی درآمدات کم کردیں۔ دوسری طرف مقامی سطح پر مون سون بارشوں کی وجہ سے کوئلے کی کانوں میں پانی بھرنے اور سیلاب کی وجہ سے کوئلے کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔
اس وقت چین میں بھی بجلی کا بحران سر اٹھائے ہوئے ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس کی کئی وجوہات بھارت سے ملتی جلتی ہیں تاہم چین کے متعدد مقامی مسائل بھی بجلی کی پیداوار کو متاثر کر رہے ہیں۔
چین میں بجلی کی پیداوار کا 65 سے 70 فیصد کوئلے پر انحصار ہے۔ علاوہ ازیں 4.5 فیصد قدرتی گیس، 1.7 فیصد دیگر تھرمل، 2.4 فیصد ایٹمی، 16.3 فیصد ہائیڈرل ونڈ اور 10 فیصد شمسی ذرائع سے تیار کی جاتی ہے۔
چین میں توانائی کے بحران کی وجوہات میں سفارتی مسائل بھی شامل ہیں۔ چین آسٹریلوی کوئلے کا سب سے بڑا خریدار تھا تاہم آسٹریلوی وزیرِاعظم کی جانب سے چین میں کورونا کے پھیلاؤ سے متعلق دیے جانے والے بیان کے بعد چین نے آسٹریلیا سے کوئلے کی درآمدات روک دی ہیں۔ واضح رہے کہ چین کو آسٹریلوی کوئلہ مارکیٹ سے 25 فیصد سستا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا میں سیلاب کی وجہ سے چین کو کوئلے کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ کوئلے کی قیمت گزشتہ سال سے اب تک 2000 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
چونکہ چین نے سال 2060ء تک خود کو کاربن نیوٹرل بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے اس لیے متبادل توانائی کا استعمال بڑھایا جارہا ہے۔ چین نے کوئلے کے بجلی گھر اور کوئلے کی کانیں بند کرنا شروع کردی ہیں۔ چین گرین توانائی پر منتقلی کے لیے 15 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا مگر متبادل توانائی کے ذرائع تاحال بجلی کی پیداوار اور ترسیلی عمل میں بیس لوڈ لینے میں ناکام رہے ہیں۔
چین کے 38 میں سے 8 خطوں میں بجلی کا بہت زیادہ بحران ہے۔ بجلی کی بچت کے لیے مختلف دھات ساز کارخانوں کو بند کیا جارہا ہے۔ ایک صوبے میں سویابین پیدا کرنے والوں کو بھی بندش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایئر کنڈیشنر کے درجہ حرارت کو 26 ڈگری پر چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔ سب سے بُری صورتحال چین کے صوبے جیانگ سو میں ہوئی جہاں بجلی بچانے کے لیے اسٹریٹ لائٹ بند کرنا پڑ گئی ہیں۔ شمالی چین میں سردیوں کے دوران درجہ حرارت منفی 10 ہوجاتا ہے لہٰذا ایندھن اور بجلی کی پیداوار میں قلت سے عوامی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
چین نے کوئلے کے متبادل کے طور پر ایل این جی گیس کے استعمال کو فروغ دیا تھا مگر ایل این جی کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایل این جی کی جو قیمت ستمبر میں 5.080 ڈالر تھی وہ اب 38 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے تجاوز کرچکی ہے۔
پاکستان میں بجلی کے بحران کا احوال
پاکستان کو مہنگی بجلی کے باعث پہلے ہی متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کے لیے بجلی کی پیداواری لاگت کا مجموعی بوجھ عوام، کاروبار اور صنعتوں پر ڈالنا ایک مشکل سیاسی فیصلہ ہے۔ پاکستان میں اگر بجلی کی طلب اور رسد کی بات کی جائے تو دنیا کے برعکس یہاں بجلی کی پیداواری صلاحیت طلب سے زائد ہے۔ اس طرح پاکستان میں مسائل کا سبب بجلی کی قلت نہیں بلکہ اس کی زائد پیداوار ہے۔
پاکستان نے کاربن ایندھن پر چلنے والے تھرمل کارخانوں سے ٹیک اور پے کی بنیاد پر بجلی کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے، چنانچہ پاکستان میں بجلی کی کم پیداوار کے باوجود بجلی کے ایسے کارخانوں کو اربوں روپے کی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے جن سے بجلی خریدی بھی نہیں گئی ہے۔
پاکستان میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرض 2 ہزار 200 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے یعنی پاکستان میں اکٹھا ہونے والے ٹیکس کا تقریباً نصف حصہ اس گردشی قرضے میں چلا جائے گا۔
پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار، بجلی پیدا کرنے والے ایندھن اور لاگت کا جائزہ ذیل میں لیا جارہا ہے۔
اگست میں ملک میں مجموعی طور پر 21 ہزار 610 میگا واٹ یا 16 ہزار 78 گیگا واٹ بجلی پیدا کی گئی جو گزشتہ سال اگست کے مقابلے میں 10.8 فیصد زائد ہے۔ دھیان رہے کہ ملکی تاریخ میں یہ سب سے بڑی پیداواری مقدار ہے۔ ستمبر میں بجلی کی پیداوار 7.1 فیصد اضافے کے ساتھ 19 ہزار 489 میگا واٹ یا 14 ہزار 32 گیگا واٹ رہی جبکہ اگست کے مقابلے میں موسم سرد ہونے کی وجہ سے بجلی کی طلب کم رہی اور 2 ہزار 121 میگا واٹ بجلی کم پیدا ہوئی۔
اگست میں پن بجلی سے 5 ہزار 594 گیگا واٹ، آر ایل این جی سے 2 ہزار 896، کوئلے سے 2 ہزار 294، ایٹمی ذرائع سے ایک ہزار 630، فرنس آئل سے ایک ہزار 628، مقامی گیس سے ایک ہزار 313، ہوائی ذرائع سے 550، شمسی ذرائع سے 67، درآمدی ذرائع سے 45، بھگاس سے 24 اور ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 20 گیگاواٹ بجلی پیدا کرکے نیشنل گرڈ کو فراہم کی گئی۔
ان تمام ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے لیے رواں سال اگست میں ایندھن کی لاگت 6.41 ڈالر رہی جبکہ اگست 2020ء میں یہ 4.09 ڈالر تھی جبکہ ایندھن کی قیمت میں 56.9 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رواں سال اگست کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس مہینے میں آر ایل این جی سے پیدا کی جانے والی بجلی کی لاگت 91 فیصد بڑھ گئی ہے جو 13.44 روپے فی کلو واٹ رہی، جبکہ اگست 2020ء میں یہ لاگت 7 روپے تھی۔ جبکہ اس مہینے میں 103 فیصد اضافے کے بعد آر ایل این جی کی قیمت 2 ہزار 174 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو رہی ہے۔
اسی طرح کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 50 فیصد بڑھ کر 9.06 روپے فی کلو واٹ تک پہنچ گئی ہے۔ اگست 2020ء میں اس کی قیمت 6 روپے فی کلو واٹ تھی جبکہ اس مہینے میں کوئلے کی قیمت 143 فیصد بڑھ گئی ہے۔
فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 49 فیصد اضافے کے بعد 18.24 روپے فی کلو واٹ رہی جبکہ فرنس آئل کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگست 2020ء میں فرنس آئل سے بنائی جانے والی بجلی 12.2 روپے تھی۔
مقامی گیس سے تیار کی جانے والی بجلی کی قیمت اضافے کے بعد 8.31 روپے فی کلو واٹ رہی جبکہ اگست 2020ء میں 7 روپے تھی۔
اسی طرح ستمبر میں پن بجلی سے 5 ہزار 85 گیگا واٹ، آر ایل این جی سے 2 ہزار 652، کوئلے سے 2 ہزار 652، ایٹمی ذرائع سے ایک ہزار 282، مقامی گیس سے ایک ہزار 248، فرنس آئل سے 997، پَون (ونڈ انرجی) ذرائع سے 230، شمسی ذرائع سے 61 گیگا واٹ بجلی پیدا ہوئی۔
رواں سال ستمبر میں بجلی پیدا کرنے والے ایندھن کی لاگت میں 65 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور مجموعی طور پر فی کلو واٹ بجلی کی پیداوار 6 روپے 80 پیسے رہی جبکہ ستمبر 2020ء میں یہ لاگت 4 روپے 60 پیسے فی کلو واٹ تھی۔ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں بجلی کی فی کلو واٹ لاگت میں ایک روپے 90 پیسے کا اضافہ ہوا ہے۔
آر ایل این جی سے بجلی کی پیداوار 120 فیصد مہنگی ہوئی اور یوں اس کی قیمت 14 روپے 90 پیسے فی کلو واٹ رہی۔ ستمبر میں پاکستان کو ملنے والی آر ایل این جی کی قیمت میں 125 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اس کی قیمت 2 ہزار 586 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک جاپہنچی۔
کوئلے سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 67 فیصد کے اضافہ کے ساتھ 10 روپے 10 پیسے فی کلو واٹ رہی جبکہ ستمبر کے دوران کوئلے کی قیمت میں 128 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 54 فیصد بڑھنے کے بعد 19 روپے 20 پیسے فی کلو واٹ رہی جبکہ قدرتی گیس سے بنائی جانے والی بجلی کی قیمت 23 فیصد اضافے کے بعد 8 روپے 30 پیسے فی کلو واٹ رہی۔
پاکستان میں بجلی کی فروخت کے حوالے سے ایک پیچیدہ نظام پایا جاتا ہے جس میں چھوٹے گھریلو صارفین کو کراس سبسڈی دی جارہی ہے۔ ملک میں یکساں نرخ پر صارفین کو بجلی فراہم کی جاتی ہے جسے بیس ریٹ کہا جاتا ہے۔ جس میں گھریلو صارفین کے لیے الگ الگ سلیب موجود ہیں جبکہ صنعتی اور کمرشل صارفین کے لیے بھی الگ الگ نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔
- گھریلو صارفین سے 3 روپے 95 پیسے فی یونٹ سے لے کر 24 روپے 30 پیسے تک فی یونٹ وصول کیے جاتے ہیں۔
- کمرشل صارفین سے 21 روپے 4 پیسے سے 24 روپے 52 پیسے تک فی یونٹ وصول کیے جاتے ہیں۔
- عام خدمات کے لیے ٹیرف 22 روپے 40 پیسے تک فی یونٹ وصول کیے جاتے ہیں۔
- صنعتوں سے 16 روپے 84 پیسے سے 20 روپے 34 پیسے تک فی یونٹ وصول کیے جاتے ہیں۔
اوپر بیان کیے گئے بیس ریٹ میں حال ہی میں حکومت نے مزید ایک روپے 39 پیسے اضافے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان میں بیس ریٹ کے علاوہ اگر ایندھن کی قیمت میں بہت زیادہ ردوبدل ہو تو حکومت کی تقسیم کار کمپنیاں ہر مہینے کے حوالے سے فیول ایڈجسمنٹ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس حوالے سے بجلی کے شعبے کا ریگولیٹر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) عوامی سماعت کرنے کے بعد اضافے کا اعلان کرتا ہے۔
حکومت کی تقسیم کار کمپنیوں نے ستمبر کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 53 فیصد یا 2 روپے 66 پیسے اضافے کا مطالبہ کیا ہے جس سے وہ 36 ارب روپے کا اضافی ریوینیو حاصل کرسکیں گی۔ اگست میں بھی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 44 فیصد اضافہ طلب کیا گیا تھا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے متوسط طبقے کے لیے توانائی کا استعمال اور خریداری ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ دنیا میں انرجی پاورٹی یا توانائی کی غربت کی بات کی جارہی ہے اور حکومتیں مہنگی ہوتی توانائی پر قابو پانے اور عوام کو سستی بجلی اور ایندھن کی فراہمی کے لیے مختلف اقدامات کا اعلان کررہی ہیں۔
توانائی سے ہر چیز متحرک ہے اور ایندھن مسلسل مہنگا ہورہا ہے اور حالیہ سردیوں میں اس مہنگائی کے کم ہونے کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں۔ حکومتیں مجبوراً ایندھن کی قیمت کا بوجھ عوام کو منتقل کریں گی اور بیشتر ملکوں میں یہ کام شروع بھی ہوگیا ہے۔ اس کے سبب معیشت میں انفلیشن کی بدترین صورت یعنی ہائپر انفلیشن کے پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
آنے والے دنوں میں چین اور یورپ کے عوام دیگر اشیا کی خریداری کے بجائے ایندھن کی خریداری پر زیادہ رقوم خرچ کریں گے۔ اور ان کے پاس پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں کی برآمدی اشیا کی خریداری کے لیے رقم دستیاب نہیں ہوگی۔
پاکستان میں لوگ انفلیشن کے عادی ہیں اور بعض پاکستانیوں کو ایندھن کی مد میں اپنی ماہانہ آمدنی کا 60 سے 70 فیصد حصہ تک ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر بجلی گیس اور پیٹرول مزید مہنگا ہوا تو ان کی توانائی کی غربت کے ساتھ ساتھ مجموعی غربت میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں