لاہور: ٹی ایل پی اور پولیس میں جھڑپیں، 3 اہلکار شہید، متعدد زخمی
لاہور میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ایک بیان میں لاہور کے ڈی آئی جی (آپریشنز) کے ترجمان مظہر حسین نے کہا کہ دو شہید پولیس اہلکاروں کی شناخت ایوب اور خالد کے نام سے ہوئی ہے البتہ تیسرے اہلکار کی شناخت نہیں ہو سکی تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار، نوٹیفکیشن جاری
مظہر حسین نے بتایا کہ جھڑپوں میں کئی اہلکار زخمی بھی ہوئے جنہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ مظاہرین نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پیٹرول بم بھی پھینکے۔
انہوں نے کہا کہ مشتعل ہجوم نے لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال بھی کیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
دریں اثنا لاہور پولیس کے ترجمان عارف رانا نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ ٹی ایل پی کے حامیوں کی جانب سے ایک پولیس چوکی پر حملے کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی مقامات پر پولیس کی مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں، انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پرامن رہیں گے لیکن بعد میں انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے، عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مظاہرین کے تشدد اور گاڑیوں کی ٹکر سے شہید ہونے والے 3پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت کا بلند مرتبہ پایا اور ہم ان کی اس عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
عثمان بزدار نے کہا کہ پنجاب حکومت غمزدہ خاندانو ں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے اور پولیس کے شہدا کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
مزید پڑھیں: لانگ مارچ کا اعلان: پنجاب میں ’ٹی ایل پی‘ کے سیکڑوں کارکنان زیر حراست
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی عملدراری کو ہر صو رت یقینی بنایا جائے اور افسوسناک واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
دوسری جانب ٹی ایل پی کے میڈیا کوآرڈینیٹر صدام بخاری نے کہا کہ پولیس نے اسلام آباد جانے والی پرامن ریلی پر حملہ کیا۔
ایک علیحدہ بیان میں کالعدم گروپ کے ترجمان نے کہا کہ کارکنوں نے تاریخ کی بدترین شیلنگ کا سامنا کیا اور ماؤ کالج پل کے قریب چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ تحریک لبیک پاکستان کے 500 سے زائد کارکن شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 15 کی حالت تشویشناک ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی میں مذاکرات ناکام
تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہو گیا ہے اور ٹی ایل پی نے امیر سعد رضوی کی رہائی تک حکومت سے مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
تحریک لبیک اور پنجاب حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہو گیا ہے جس کے بعد کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کل ملک بھر میں موبائل فون سروس بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ٹی ایل پی کے خلاف رات گئے ہنگامی بنیادوں پر ٹارگیٹڈ آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک لبیک کی مرکزی شوریٰ نے کہا ہے کہ جب تک امیر محترم علامہ حافظ سعد حسین رضوی نہیں پہنچیں گے، اس وقت مذاکرات نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مذاکرات کے لیے بلا کر پیچھے سے ہمارے کارکناں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، ہمارے ہزاروں کارکن شدید زخمی ہو چکے ہیں اور کئی کو گولیاں لگی ہیں۔
ٹی ایل پی کی شوریٰ نے کہا کہ ہم ملک اور اس کی ہر چیز کے رکھوالے ہیں، اب سعد حسین رضوی ہی مذاکرات کریں گے۔
خیال رہے کہ کالعدم جماعت نے منگل کے روز عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو 12 اپریل سے گرفتار اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان
3 روز تک لاہور میں مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد کالعدم تنظیم نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے جاری بیان میں یہ انتباہ بھی دیا تھا کہ اگر مظاہرین کو اسلام آباد جانے سے روکا گیا تو اس کے لیے بھی منصوبہ تیار ہے۔
مذاکرات کیلئے دو رکنی کمیٹی کا اعلان
جمعہ کی سہ پہر 4 بجے کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کالعدم جماعت سے مذاکرات کے لیے کابینہ کے دو سینئر اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
وزیر اعلیٰ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ملک میں امن و آشتی کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ نے یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان سے لاہور میں ملاقات کے بعد کیا۔
احتجاج کے پیش نظر حکومت نے جڑواں شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی تھی اور میٹرو اسٹیشنز سمیت مختلف مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
کالعدم تنظیم تحریک لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے نماز جمعہ کے بعد اسلام آباد کی جانب احتجاجی لانگ مارچ کے اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔
اس کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے جڑواں شہروں (وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی) میں متعدد اہم شاہراہیں کو رکاوٹیں لگا کر بلاک کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: لاہور: سعد رضوی کی رہائی کیلئے ’ٹی ایل پی‘ کے کارکنوں کا دھرنا، پولیس ہائی الرٹ
ادھر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس نے گزشتہ تقریباً 24 گھنٹوں کے دوران کالعدم ٹی ایل پی کے 100 سے زائد کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
احتجاج کے پیشِ نظر وفاقی پولیس کے اہلکاروں اور جوانوں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور چھٹی پر گئے اہلکاروں کو ڈیوٹی پر واپس پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔
لاہور کی صورتحال
لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر منتظر مہدی نے ایک جاری بیان میں کہا کہ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کے ساتھ ساتھ فیروز پور روڈ، جیل روڈ، وحدت روڈ، مال روڈ اور کینال روڈ پر ٹریفک کی روانی معمول کے مطابق رہی۔
انہوں نے کہا کہ چونگی امر سادھو، ٹھوکر نیاز بیگ، چنگ اور موہلانوال کے علاقوں کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ پر بھی ٹریفک کی روانی متاثر نہیں ہوئی۔
تاہم بابو صابو کو اسکیم موڑ اور اسکیم موڑ سے یتیم خانہ چوک کو ملانے والی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہیں جبکہ سیکریٹریٹ چوک پر نابینا افراد کا احتجاج جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید معلومات کے لیے شہری 15 ہیلپ لائن سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے جبکہ واٹر کینن اور بکتر بندگاڑیاں بھی فیض آباد پہنچا دی گئیں۔
علاوہ ازیں آنسو گیس کی شیلنگ کے سامان سے لیس پولیس کے دستے بھی فیض آباد میں موجود ہیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ مظاہرین کو کسی صورت فیض آباد نہ پہنچنے دیا جائے۔
راولپنڈی میں اہم شاہراہیں بند، مارکیٹس سیل
راولپنڈی میں سڑکیں بلاک اور میٹروبس سروس معطل ہونے کے باعث دفاتر جانے والے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انتظامیہ نے شہریوں کو اسلام آباد کے غیر ضروری سفر سے اجتناب کرنے کی بھی ہدایت کی۔
اس حوالے سے جاری بیان میں پولیس نے کہا کہ شہر میں کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
احتجاج کے پیشِ نظر ٹریفک پلان
مظاہرین کو احتجاج سے روکنے کے لیے راولپنڈی پولیس کی جانب سے شہر کی مختلف سڑکیں بلاک کر کے ٹریفک کارخ موڑ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کا حکم
راولپنڈی ٹریفک پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ اسٹیڈیم روڈ راولپنڈی سے نائنتھ ایونیو سگنل پر ٹریفک کو دونوں جانب موڑ دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی کہ متبادل کے طور پر نائنتھ ایونیو اسلام آباد اور فیض آباد سے راولپنڈی جانے والے مسافر آئی جے پی روڈ استعمال کرے۔
پولیس کے مطابق مری روڈ پر فیض الاسلام اسٹاپ ٹریفک کے دونوں اطراف بند ہے لہٰذا متبادل کے طور پر اسلام آباد سے مری روڈ راولپنڈی جانے والے مسافر اسلام آباد ہائی وے استعمال کریں۔
علاوہ ازیں ایکسپریس چوک سے ڈی چوک تک دونوں اطراف جناح ایونیو کو بند کردیا گیا ہے اور ریڈ زون کے داخلے اور باہر نکلنے کے لیے شہریوں کو متبادل کے طور پرن ادرا چوک اور ایوب چوک استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی وے سے آئی جے پی روڈ تک سوہان اسٹاپ پر ٹریفک کو موڑا گیا ہے اور شہریوں کو متبادل طور پر فیصل ایونیو استعمال کرنے کا کہا گیا۔
مزید پڑھیں: فرانسیسی سفارتکار کی بے دخلی سے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے، شیخ رشید
ٹریفک پولیس کے مطابق مری روڈ کو مریڑ چوک سے فیض آباد تک دونوں سائیڈوں پر کنٹینر لگا کر مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تا کہ مری روڈ پر کسی جانب سے بھی ٹریفک داخل نہ ہو سکے۔
دوسری جانب نائتھ ایونیو سے راولپنڈی کی جانب آنے والی ٹریفک کو آئی جے پی روڈ کی طرف ڈائیورٹ کیا جائے گا اور اسلام آباد جانے والے شہری پشاور روڈ اور آئی جے پی روڈ کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد داخل ہو سکیں گے۔
پولیس کے مطابق اولڈ ائیر پورٹ روڈ اور مال روڈ تمام ٹریفک کے لیے کھلی ہیں، ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے ہائی کورٹ چوک، کچہری اور مال روڈ پر ٹریفک پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں راولپنڈی انتظامیہ نے گوالمنڈی، سٹی صدر روڈ، کامران مارکیٹ میں مختلف مقامات کو بھی سیل کردیا جس کے باعث شہریوں کو اشیائے خور و نوش کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر
گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔
تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔
حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔
قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔
بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔
تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔
بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں