موسمیاتی تبدیلی تیل پر انحصار کرنے والے ممالک کیلئے دگنا خطرناک ہے، ماہرین
موسمیاتی بحران نے مشرق وسطیٰ کو دو گنا خطرات سے دوچار کردیا ہے جہاں ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا تجدید کی طرف منتقل ہورہی ہے جس سے تیل کا سرمایہ تباہ او بڑھتا ہوا درجہ حرارت ناموافق حالات کی انتہا کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے منعقدہ کانفرنس میں کہا گیا کہ خانہ جنگی، جھڑپوں اور مہاجرین سے متاثرہ خطے میں چیلنجز سے نٹمنے کے لیےکام کیا گیا ہے البتہ گلوبل وارمنگ کا رجحان بڑھنے کا امکان ہے۔
مشرقی بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب میں قبرص کے صدر نیکوس آناستاسیادس نے بتایا کہ ‘ ہمارا خطہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے لیے حساس بن چکا ہے’۔
50 کروڑ آبادی پر مشتمل ملک پہلے ہی سورج کے قریب علاقے میں واقع ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل اور اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی جانب سے اس کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہمارے اقدامات دنیا کو نظر کیوں نہیں آتے؟
رپورٹ کے مطابق یہ 2015 میں پیرس معاہدے کی توثیق نہ کرنےوالے بیشتر ممالک کا گڑھ ہے جن میں ایران، عراق، لیبیا اور یمن شامل ہیں، اقوام متحدہ کی کوپ 26 موسمیاتی کانفرنس سے ہفتوں قبل جو گلاسگو میں شروع ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مستحکم ڈیولپمنٹ سیلوشن نیٹ ورک کے سربراہ جیفری سیچس کا کہنا تھا کہ جب ہم موسمیاتی تبدیلی اور مشرق وسطیٰ کی بات کرتے ہیں تو’یہاں بے شمار مسائل’ ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے جیفری سیچس کا کہنا تھا کہ‘سب سے پہلے یہ ہائیڈروکاربن کا مرکز ہے، تو خطے کی بیشتر معیشتیں ایندھن پر انحصار کرتی ہیں، در حقیقت یہ اناکی جیسا ہے اور ہمیں اس سے روکنا پڑے گا’۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک خشک علاقہ ہے اور مزید خشک ہورہا ہے تو ہرجگہ یہی نظر آتا ہے کہ یہاں پانی کی کمی، پانی کی کمی کا دباؤ اور آبادی کے کی منتقلی کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں: جی 20 وزرا ماحولیاتی اہداف پر اتفاق رائے میں ناکام
سیچس نے مطالبہ کیا کہ’ معنی خیز سیاست والے اس علاقے میں پڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے’۔
انہوں نے کہا کہ تقسیم شدہ علاقہ وہ خطہ ہے جو خاص طور پر تیل سے متعلق جنگوں اور جھڑپوں کی زد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ یہاں سورج کی روشنی بہت زیاہ ہے، جو خطے کے حل کے طور پر قابل غور ہے، وہ صرف آسمان کی جانب دیکھیں، سورج کی شعاعیں نئی صاف اور سبز معیشت فراہم کریں گی۔
فرانس کے سابق وزیر خارجہ لاورینٹ فیبیس پیرس معاہدے کے نگراں ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ رواں سال کی انتہا کی گرمیوں میں ہمیں قبرص، یونان، ترکی، اسرائیل اور لبنان کے جنگلات میں تباہ کن آگ کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ کویت، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، عراق میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے زیادہ تھا، ہمیں ترکی میں خشک سالی اور مختلف ممالک میں پانی کی کمی کا سامنا رہا، جن میں اردن خاص طور پر شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ یہ الم ناک واقعات کوئی مصیبت زدہ فلم نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے 'پیرس معاہدے' سے باضابطہ دستبردار
قبرص یورپی یونین کا وہ رکن ہے جو مشرق وسطیٰ سے قریب ہے جو 240 سائنس دانوں پر مشتمل 10 سالہ علاقائی ایکشن پلان بنانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ اب سے سالانہ سربراہی کانفرنس میں شریک ہوگا۔
گزشتہ ہفتے دو روزہ کانفرنس میں کہا گیا کہ ابتدائی نتائج میں گرین ہاؤس گیسز کااخراج بھی شامل ہے جس سے خطے نے یورپین یونین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پانی کے بحران کا شکار مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو عالمی شرح کے مقابلے دگنا درجہ حرارت ہے اور سائنس دانوں کے مطابق 1980 سے اوسطاً درجہ حرارت فی دہائی 0.45 ڈگری سیلسیس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی آلودگی کے مسائل ختم کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے، وزیراعظم
علاقے میں صحرا پھیل رہے ہیں اور مٹی کے طوفان بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں برف باری کم ہونے کے ساتھ اس کےاثرات دریائی نظام پر پڑ رہے ہیں جو لاکھوں افراد کو پانی فراہم کرتا ہے۔
ڈچ ماحولیاتی ماہر جوس لیلیویلڈ کا کہنا تھا کہ صدی کے اختتام میں اخراج کی معمول بن جائے گا جبکہ درجہ حرارت 6 سیلسیس تک مزید بڑھ سکتا ہے اور موسم گرما کے دوران’ بہت زیادہ ، انتہائی ہیٹ ویوز’ کا امکان ہوگا۔