• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کیا آپ بھی ’گریو یارڈ‘ شفٹ میں کام کرتے ہیں؟

شائع November 16, 2021
خاکہ: سعد عارفی
خاکہ: سعد عارفی

رات طاری ہوچکی ہے اور اکثر لوگ اپنے کام سے گھروں کو واپس جاچکے ہیں یا پھر گھروں کو جانے کی تیاری کررہے ہیں تاکہ گھر والوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا سکیں اور آرام کرسکیں۔ تاہم رات کی شفٹ یا ’گریو یارڈ شفٹ‘ کرنے والے لوگ اس وقت اپنے کام کی جگہوں پر پہنچے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔

موجودہ معاشی صورتحال میں کاروباری ادارے اپنی خدمات اور اشیا کی 24 گھنٹے موجود رہنے والی طلب کو پورا کرنے کے لیے رات کی شفٹ میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ فیکٹریوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا، ٹرانسپورٹ، شعبہِ صحت اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والے افراد عموماً دن بھر کام کرتے ہیں۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رات کے وقت یہ لوگ کام کے دوران کس طرح جاگتے رہتے ہیں؟ ایسا کرنے سے کیا ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ معمول تو انسانی جسم کے لیے بنے قدرتی نظام کے خلاف ہے۔

شجاعت امیر ایک مارکیٹ ریسرچ فرم میں گزشتہ 10 سال سے رات کی شفٹ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چونکہ آپ قدرت کے خلاف جارہے ہوتے ہیں اس وجہ سے صحت سے متعلق مسائل تو سامنے آتے ہی ہیں۔ ہمارا جسم رات کو آرام کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اسے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں‘۔

ان کے ادارے کے اکثر صارفین یورپ اور امریکا سے تعلق رکھتے ہیں جس وجہ سے شجاعت کو ان کے ٹائم زون میں کام کرنا ہوتا ہے۔ وہ تقریباً شام 5 بجے دفتر چلے جاتے ہیں اور پھر صبح 3 یا 4 بجے گھر واپس آتے ہیں۔

شجاعت بتاتے ہیں کہ ’دن کے وقت لوگ عموماً ملتے جلتے ہیں، دفتر میں چہل قدمی کرتے ہیں اور کھانا کھانے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ تاہم رات کے وقت دفتر میں کم لوگ ہوتے ہیں اور سب کام میں ہی مصروف رہتے ہیں‘۔

ڈاکٹر عمران افضال کراچی کے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل اسپتال میں ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’رات کے وقت کام کرنے والے افراد نیند کی کمی اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں کیونکہ دن کے وقت گھر کے دیگر افراد جاگ رہے ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ خود کو اس معمول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں تاہم وہ نیند کے حوالے سے کئی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں‘۔

شجاعت نے خود کو رات کی شفٹ کے لیے آسانی سے ڈھال لیا کیونکہ ان کے گھر والے ویسے بھی رات گئے تک جاگتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں دیر سے سونے کا عادی تھا‘ تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’دفتر کے اکثر ساتھیوں کو اس حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں کمر میں درد اور بلند فشار خون کی شکایت رہنے لگی۔ ایک ساتھی کے صحت سے متعلق مسائل اس وقت حل ہوئے جب انہوں نے دن کے وقت کی نوکری اختیار کی‘۔

25 سالہ سونم گلزار سید ایک پرائیوٹ نرس ہیں جو رات 9 بجے سے صبح 9 بجے کی شفٹ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے مستقل سر درد اور کمر درد کی شکایت رہتی ہے۔ طویل دورانیے تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے میرا وزن بھی بڑھ گیا ہے‘۔

سونم کی تربیت ایک بڑے نجی اسپتال میں ہوئی تھی۔ انہوں نے وہاں کچھ عرصہ کام کیا لیکن پھر بہتر آمدن کی وجہ سے انہوں نے پرائیویٹ نرسنگ کا انتخاب کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسپتال کی ڈیوٹی اتنی سخت نہیں ہوتی، وہاں آپ کچھ دیر کا وقفہ لے سکتے ہیں کیونکہ کام سنبھالنے کے لیے دیگر نرسیں موجود ہوتی ہیں لیکن پرائیویٹ نرسنگ میں آپ کو ہر وقت مستعد رہنا پڑتا ہے‘۔

اس وقت وہ ایک خاتون کی دیکھ بھال کر رہی ہیں جو بے خوابی، ذیابیطس، بلند فشار خون اور یورینری ٹریکٹ انفیکشنز کا شکار ہیں۔ چونکہ وہ رات کے اکثر حصے میں جاگتی رہتی ہیں اس وجہ سے سونم بھی رات کو کچھ وقت کے لیے بھی آرام نہیں کرسکتں۔ اس کے علاوہ گھر میں بھی وہ اپنی دادی کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو خود بھی صحت کے کئی مسائل کا شکار ہیں۔ یوں وہ 3 سے 4 گھنٹے کی ہی نیند لے سکتی ہیں۔ ان کے نرس ہونے کی وجہ سے گھر والے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی دادی کی خدمت کریں۔

رات کی شفٹ تھکن کے ساتھ ساتھ ادراکی صلاحیت اور ردِعمل میں کمی کا سبب بن سکتی ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں میں بیماریوں کا شکار ہونے کے خطرات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے دیگر مسائل میں بے آرامی، کام کے دوران نیند آنا، توجہ میں کمی اور جسم کے میٹابولک عمل میں خلل پڑنا شامل ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ رات کے وقت کام کرنا ایک ضروری ہارمون لیپٹِن کی تیاری اور گردش میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ ہارمون وزن، شوگر اور انسولین کی سطح کو متوازن رکھنے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کی تیاری اور گردش میں رکاوٹ آنے سے صحت مند خوراک لینے کے باوجود انسان موٹاپے اور ذیابیطس کا شکار ہوسکتا ہے۔

رات دیر تک کام کرنے سے انسان کے نظام انہضام پر بھی اثر پڑتا ہے جس کے سبب قبض، بدہضمی اور معدے کے مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد صبح کے اوقات میں شاز ہی باہر نکلتے ہیں اور اس وجہ سے وہ دھوپ میں نہیں آتے جو وٹامن ڈی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

زرینہ احمد* ایک صحافی ہیں جن میں پری ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے ڈاکٹر کے مطابق اگر میں ایکسر سائز نہ کروں، نیند میں اضافہ نہ کروں اور تناؤ اور کاربوہائیڈریٹس میں کمی نہ لاؤں تو رات کی شفٹ میری جان لے لے گی‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’گزشتہ کچھ سالوں سے میں گھر تاخیر سے پہنچ رہی ہوں اور صبح دیر سے جاگتی ہوں۔ اور اس غیر صحت بخش معمول کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں‘۔

سید عقیل حسین گزشتہ 25 سال سے مختلف ایئر پورٹس پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایئرپورٹ پر گراؤنڈ ہینڈلنگ سروسز فراہم کرنے والی کمپنی کے لیے 12 سے 16 گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رات کی شفٹ سے ان کی صحت متاثر نہیں ہوئی کیونکہ ان کے کام میں بہت زیادہ چلنا بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ’عموماً ایک جہاز کو لوڈ کرنے کے لیے 3 چکر کرنے پڑتے ہیں، یعنی میں کافی پیدل چلتا ہوں‘۔

تاہم ڈاکٹر عمران کے خیال میں ایک شخص رات کی شفٹ کے حوالے سے خود کو جس طرح ڈھالتا ہے اس میں اس کی عمر، جنس اور عادتوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ’رات کی شفٹ میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کے برعکس اکثر گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مردوں کی نسبت نیند کی کمی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں‘۔

محققین کے مطابق اس بات کے کئی شواہد موجود ہیں کہ رات کی شفٹ میں کام کرنے سے حاملہ خواتین کو اسقاط حمل، وقت سے پہلے پیدائش یا پیدائش کے وقت بچے کا وزن کم ہونے کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ہم نے صحت پر تو بات کرلی لیکن کیا رات کی شفٹ سے گھر اور سماجی زندگی بھی متاثر ہوسکتی ہے؟

زرینہ نے رات کی شفٹ کا انتخاب اس وجہ سے کیا تھا کیونکہ اس طرح وہ دن کے وقت گھر کا انتظام بھی کرسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو 10 سال ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں کاپی ڈیسک پر شام کی شفٹ میں شاید ہی کوئی خاتوں ہوتی تھی، اور جو موجود ہوتی تھیں وہ بھی رات 10 بجے تک چلی جاتی تھیں۔ میں اکیلی خاتون ہوتی تھی جو تمام کام مکمل ہونے تک موجود رہتی تھی‘۔

دفاتر میں دیر تک کام کرنے والی خواتین کو روز ہی پدرشاہی ذہنیت سے لڑنا ہوتا ہے۔ زرینہ کا کہنا ہے کہ ’نیوز روم میں موجود مرد کوشش کرتے تھے کہ میں جلدی گھر چلی جاؤں۔ دفتر میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہوتا تھا کہ دفتر میں رات گئے تک کام کرنا خواتین کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ان کو یہ بات سب سے زیادہ پریشان کرتی تھی کہ میرے گھر کے مردوں نے مجھے دیر تک کام کرنے کی اجازت کیسے دے دی۔ میں انہیں شائستگی سے لیکن مضبوط انداز میں یہ کہتی تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ شکر ہے کہ میرے خاندان کے مردوں نے اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی‘۔

شجاعت نے اس نقطے کی جانب توجہ دلائی کہ گھر والے آپ کو دن کے وقت سونے نہیں دیتے اور آپ کو مختلف کام تھما دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’شادی سے قبل میں دفتر کے سکون اور خاموشی کو پسند کرتا تھا لیکن شادی کے بعد میں دن کے وقت کام کرنے کو ترجیح دیتا ہوں‘۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سماجی سرگرمیوں سے طویل وقت تک دُور رہنے کے نتیجے میں فرد کی ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور ڈپریشن اور چڑچڑے پن کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

زرینہ کہتی ہیں کہ ’میں گھر کی کئی اہم تقریبات میں شریک نہ ہوسکی یا پھر شادی کی تقاریب میں تاخیر سے پہنچی۔ لیکن ماہِ رمضان میں سحری کے پروگرامات میرے معمول کے حساب سے بہترین ہوتے تھے اور میرے خیال سے میں دیگر تقاریب کی کمی بہت حد تک پوری کرلیتی تھی‘۔

سید عقیل حسین دن کے اوقات کو مزید کام میں صرف کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ رات کی شفٹ کی وجہ میں دن کے وقت گھڑیوں کی مرمت کی دکان چلا لیتا ہوں جس سے میری آمدن بہتر ہوجاتی ہے‘۔

جیسے جیسے عالمی معیشت 24 گھنٹے کام کی جانب بڑھ رہی ہے ویسے ہی زیادہ سے زیادہ لوگ خود کو رات کی شفٹ میں کام کرتا ہوا پارہے ہیں۔ جہاں خود ان افراد کو اپنی صحت پر توجہ دینے اور اپنی نیند کے اوقات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ان کا آجیر بھی ان کی ہر ممکن مدد کرے۔


*شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کردیا گیا ہے۔


یہ مضمون 17 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

رضوانہ نقوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024