کچھ افراد کے ہاتھ میں یہ مسل یا 'لکیر' کیوں نہیں ہوتی؟
اپنے ہاتھ کو میز کی سطح پر اس طرح رکھیں کہ ہتھیلی اوپر ہو اور پھر انگوٹھے سے چھوٹی انگلی کو چھوتے ہوئے سطح سے ہاتھ کو ہلکا سے اٹھالیں۔
کیا آپ کو کلائی کے درمیانی حصے میں مسل یا سخت سفید ریشہ دارنس کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟
اگر آپ دیکھ رہے ہیں تو آپ ان اکثریتی افراد میں ہیں جن میں یہ پالماریس لنگس نامی مسل موجود ہے۔
اور اگر لکیر نظر نہیں آرہی تو آپ دنیا کے ان 14 یا 15 فیصد افراد میں شامل ہیں جن میں یہ مسل موجود نہیں۔
تو یہ دلچسپ کیوں ہے؟ درحقیقت اس سے انسانوں میں ارتقائی مراحل کو ثابت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
پالماریس لنگس ایسا مسل ہے جو تمام انسانوں میں نہیں جاتا جو زمانہ قدیم سے ایسے جانداروں میں موجود ہے جو ہاتھوں کی مدد سے خود کو کسی جگہ جھولتے تھے یا درختوں پر چڑھتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں اس کا کوئی حقیقی استعمال نہیں اور یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد میں اب یہ موجود بھی نہیں۔
آج کے عہد میں اس کی موجودگی یا عدم موجودگی سے نہ تو کوئی مضبوطی ملتی ہے اور نہ ہی گرفت میں بہتری آتی ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اب 14 یا 15 فیصد افراد میں یہ مسل موجود نہیں۔
ان میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
تاہم یہ شرح افریقی، ایشیائی اور قدیم امریکی آبادیوں میں دیگر سے مختلف ہے۔
اگر آپ کو کلائی میں لکیر ابھری ہوئی نظر آئے تو آپ یقیناً کلائی کے اس لمبے مسل کے مالک ہیں۔
تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو فکر مند مت ہوں، موجودہ طرز زندگی میں ہمارے لیے یہ یہ کسی کام کا نہیں کیونکہ ہمیں درختوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں ارتقا جاری رہا تو آئندہ کئی صدیوں بعد لوگوں کے ہاتھوں میں ایسا مسل کبھی سامنے نہیں آئے گا۔