• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد نیب کیسز کی حیثیت غیر یقینی سے دوچار

شائع October 16, 2021
پہلے کیس میں راولپنڈی کے احتساب جج محمد سعید اللہ نے عدالتی حکام کو کہا کہ بلڈر کے خلاف ریفرنس واپس پراسیکیوٹر کو بھیجیں — فائل فوٹو / ریڈیو پاکستان
پہلے کیس میں راولپنڈی کے احتساب جج محمد سعید اللہ نے عدالتی حکام کو کہا کہ بلڈر کے خلاف ریفرنس واپس پراسیکیوٹر کو بھیجیں — فائل فوٹو / ریڈیو پاکستان

قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائرے سے خارج مقدمات کی حیثیت غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے کیونکہ احتساب عدالت راولپنڈی نے ایک ریفرنس کی سماعت روکتے ہوئے اسے کسی دوسری عدالت میں دائر کرنے کے لیے استغاثہ کو واپس بھیج دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں نافذ ہونے والے قومی احتساب (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2021 کے تحت سیشن عدالت نے ریفرنس واپس نیب کو بھیج دیا۔

پہلے کیس میں راولپنڈی کے احتساب جج محمد سعید اللہ نے عدالتی حکام کو کہا کہ بلڈر کے خلاف ریفرنس واپس پراسیکیوٹر کو بھیجیں تاکہ وہ اسے دوسری عدالت میں دائر کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی درخواستوں اور ریفرنسز کی کارروائی میں 'صدارتی آرڈیننس' حائل

گزشتہ ہفتے غلام محبوب اور عابد محمود کی جانب سے دائر درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد احتساب عدالت اس معاملے پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی کیونکہ نئے قانون نے نجی فریقین کے درمیان تنازعات کو نیب کے دائرہ کار سے باہر کردیا ہے۔

ملزم کے وکیل عمران شفیق نے نشاندہی کی کہ آرڈیننس کے سیکشن 4 نے احتساب عدالت کے دائرہ کار کو ختم کردیا ہے کیونکہ ذیلی سیکشن ’ٹو سی‘ کے مطابق ‘اگر کوئی فرد یا ادارہ لین دین کرتا ہے جو بلاواسطہ یا بلواسطہ سرکاری ادارے سے منسلک نہیں ہے تو وہ احتساب عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا’۔

انہوں نے دلیل دی کہ نئے آرڈیننس کے بعد ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا کیونکہ درخواست گزار اور شریک ملزم کبھی کسی سرکاری ادارے کے ملازم نہیں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا نئے احتساب آرڈیننس کو نافذ کرنے کا عزم

دوسری جانب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو اس کیس کو چلانے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ ملزم اور اس کی کمپنی نے راولپنڈی کے منصوبے سفاری انکلیو میں فلیٹ کی بکنگ کی مد میں عوام سے کروڑوں روپے حاصل کیے لیکن انہیں فلیٹ دینے میں ناکام رہے۔

تاہم جج کا مؤقف تھا کہ کیونکہ صدارتی آرڈیننس کے بعداس طرح کے جرائم این اے او کے دائرہ کار میں نہیں آتے اس لیے عدالت اس معاملے کو آگے نہیں چلا سکتی۔

عدالت نے ریفرنس پراسکیوٹر کو واپس بھیجتے ہوئے کہا کہ اسے کسی دوسری عدالت میں منتقل کریں، پراسیکیوشن نے معاملہ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کامران بشارت مفتی کو بھیج دیا۔

مزید پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس زیر التوا کیسز پر لاگو نہیں ہوتا، پراسیکیوٹر

جج نے صدارتی آرڈیننس کے سیکشن 4 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ احتساب عدالت میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے محمد عبداللہ نے کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھا اس لیے ‘نیب حکام کو چاہیے کہ وہ کیس متعلقہ تحقیقاتی ادارے کو منتقل کریں’۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024