• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

صوبائی محکموں کے حوالے سے سٹیزن پورٹل کی کارروائیاں غیر قانونی ہیں، پشاور ہائیکورٹ

شائع October 14, 2021
کوئی شک نہیں کہ پی ایم ڈی یو اور پی سی پی ملک بھر میں وفاق کے ایگزیکٹو اتھارٹی کے لیے مقررہ حد سے باہر کام کر رہے ہیں، عدالت عالیہ - فائل فوٹو:اے پی پی
کوئی شک نہیں کہ پی ایم ڈی یو اور پی سی پی ملک بھر میں وفاق کے ایگزیکٹو اتھارٹی کے لیے مقررہ حد سے باہر کام کر رہے ہیں، عدالت عالیہ - فائل فوٹو:اے پی پی

پشاور ہائیکورٹ کے مینگورہ بینچ نے فیصلہ سنایا ہے کہ وزیر اعظم کے پرفارمنس ڈلیوری یونٹ (پی ایم ڈی یو) اور پاکستان سٹیزن پورٹل (پی سی پی) کو عوامی محکمے کے حوالے سے لوگوں کی شکایات پر کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس طرح کی کارروائی آئین کی خلاف ورزی ہے جو صوبوں کو ان کے اپنے دائرے میں خود مختاری فراہم کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 5 رہائشیوں کی جانب سے دائر درخواست کو منظور کرتے ہوئے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقار احمد خان نے قرار دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایم ڈی یو اور پی سی پی ملک بھر میں وفاق کے ایگزیکٹو اتھارٹی کے لیے مقررہ حد سے باہر کام کر رہے ہیں اور براہ راست صوبائی حکومت کے محکموں سے معاملات میں نمٹ رہے ہیں جو خصوصی طور پر صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

بینچ نے اپنے 27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ’یہاں یہ واضح طور پر اپنے قانونی اختیار کی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں، صوبائی حکومت کے محکموں کا خود صوبائی حکومت کو ان کا احتساب، ان کی دیکھ بھال، ریگولیشن اور انہیں مؤثر بنانا چاہیے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اگر صوبائی محکموں کی بد انتظامی کو چیک کرنے کے لیے سٹیزن پورٹل یا سسٹم درکار ہو تو اسے صوبائی سطح پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا عوام کی جزوی طور پر حل شدہ شکایات دوبارہ کھولنے کا حکم

یہ درخواست ضیا اللہ اور پانچ دیگر رہائشیوں نے دائر کی تھی جن کے خلاف چند نامعلوم افراد نے پی سی پی سے شکایت کی تھی کہ انہوں نے کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیار حاصل کیے ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دی ہے۔

شکایت سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو بھیج دی گئی جس پر پولیس اور دیگر محکموں نے اس کی تحقیقات کی تاہم شکایت جھوٹی نکلی تھی۔

درخواست گزاروں کے وکیل اورنگزیب نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سرکاری ملازم تھے تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس شکایت کی وجہ سے ان کی تذلیل ہوئی، ہراساں کیا گیا اور دباؤ ڈالا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی سی پی اور پی ایم ڈی یو صوبائی محکموں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں مداخلت کرکے غیر آئینی طریقے سے کام کررہا ہے۔

بینچ نے درخواست گزاروں کی درخواست منظور کرلی اور پی سی پی کے ذریعے گمنام شکایت پر کارروائی کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہراسانی کیس: شکایت پر کارروائی نہ کرنے والے ایف آئی اے اہلکاروں کی معطلی کا حکم

اس نے 29 ستمبر کو درخواست پر ایک مختصر حکم جاری کیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں بینچ نے مشاہدہ کیا کہ پی ایم ڈی یو اور پی سی پی کا متعارف کرانے کا مقصد اور اسے قائم کرنے اور اس کے کام کرنے کے مقاصد سرکاری اداروں اور محکموں کو وفاقی اور صوبائی دونوں کو متعلقہ قوانین، قواعد و ضوابط کے مطابق رجسٹرڈ شہریوں کی شکایات کو بروقت اور مناسب طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنے کے قابل بنانا ہے۔

تاہم بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ انتظامیہ کا ایسا ماڈل ہے، چاہے وہ شکایات کے ازالے کے مقصد کے لیے ہو، جسے آئینی طریقہ کار کے مطابق نہیں کہا جا سکتا جس میں صوبوں کو ان کے اپنے دائرے میں خود مختاری دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے مقاصد نیک اور بہتر خدمات کی فراہمی پر مبنی ہو سکتے ہیں تاہم ہم ایک فیڈریشن میں رہ رہے ہیں، آئین میں نہ صرف حکومت کے مختلف محکموں کے اختیارات واضح کیے گئے ہیں بلکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ایگزیکٹو اختیارات بھی اچھی طرح سے واضح کیے گئے ہیں‘۔

بینچ نے کہا کہ عوامی شکایات اور عوامی شعبے کے اداروں کے خلاف شکایات کے ازالے میں صوبائی، ڈویژنز اور اختیارات کی تقسیم کی آئینی طریقہ کار کو قربان کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان سٹیزن پورٹل: شکایت کنندگان میں طلبا اور تاجروں کی تعداد سب سے زیادہ

انہوں نے کہا کہ ’ایسے محکموں میں بیرونی مداخلت اور وہ بھی جو آئین اور زمینی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے بلکہ زیادہ نقصان پہنچائیں گے‘۔

عدالت نے کہا کہ ’پاکستان سٹیزن پورٹل کے اختیار پر شروع اور چلائی گئی غیر قانونی کارروائی وفاق کے ایگزیکٹو اتھارٹی سے باہر ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہے اور اس کے نتیجے میں کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

بینچ نے قرار دیا کہ پی سی پی کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی صوبائی حکام کے خصوصی دائرہ کار میں ہے اور جو مقامی پولیس نے پی سی پی کی ہدایت پر درخواست گزاروں کے خلاف کارروائی کی ہے ان کے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔

تاہم انہوں نے شکایت گزاروں کی ان کے خلاف معلومات فراہم کرنے والوں کے فوجداری کارروائی شروع کرنے یا ان کی معلومات کی فراہمی کے لیے درخواست گزاروں کی استدعا مسترد کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024