اسرائیل، اردن کو پانی کی فراہمی دوگنی کرنے پر رضامند
اسرائیل اپنے پڑوسی ملک اردن کو دگنی مقدار میں پانی کی فراہمی کے لیے باضابطہ طور پر راضی ہوگیا جو دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پانی کی شدید کمی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جولائی میں دونوں ممالک نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل، اردن کو پانی کی فروخت دوگنی کرکے اسے سالانہ 5 کروڑ کیوبک میٹر پانی فراہم کرے گا۔
اسرائیل کی وزیر برائے انفرا اسٹرکچر، توانائی و آبی وسائل کیرین الحرار نے اپنے بیان میں کہا کہ ’نیا معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں’۔
کیرین الحرار نے اس شعبے میں دوطرفہ تعلقات کو منظم کرنے والی مشترکہ آبی کمیٹی کے نمائندوں کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب کے لیے اردن کا دورہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اردن سے فضائی حدود کا تنازع: نیتن یاہو کا متحدہ عرب امارات کا دورہ منسوخ
اردن کی وزارت آبپاشی کے ذرائع نے تصدیق کی کہ دونوں فریقین نے اردن کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تاکہ ‘اردن، امن معاہدے کے فریم ورک سے باہر اضافی مقدار میں پانی کی خریداری کر سکے’۔
علاقائی ماحولیاتی گروپ مشرق وسطیٰ ایکوپیس کے اسرائیل کے ڈائریکٹر گیڈون بروم برگ کا کہنا تھا کہ ‘معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخ میں سب سے زیادہ پانی کی خرید و فروخت کو پیش کرتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ بڑھتی ہوئی تفہیم کی عکاسی کرتا ہے کہ آب و ہوا کا بحران، جو پہلے ہی خطے کو بہت زیادہ متاثر کر رہا ہے، تعاون کو بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق مغربی کنارے میں اسرائیل زیر زمین پانی کے وسائل پر قابض ہے اور اسے غیر منصفانہ طور پر تقسیم کرتا ہے۔
گروپ نے اپریل میں جاری رپورٹ میں اسرائیل پر نسل پرستی کے جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘مغربی کنارے میں اسرائیل کی متعصبانہ آبی پالیسیوں کے باعث یہودی شہریوں کو کثرت سے پانی کے استعمال کی اجازت دیتی ہے جبکہ کچھ فلسطینی برادریوں کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی پانی کے فقدان کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: عرب امارات-اسرائیل تعلقات کے قیام کے بعد کیا خطے میں نئی جنگ کا خطرہ؟
اسرائیل کا کہنا کہ وہ اوسلو معاہدے کی پاسداری کرتا ہے جبکہ ایچ آر ڈبلیو کو ‘اسرائیل مخالف ایجنڈا’ قرار دیتا ہے۔
اردن اور اسرائیل کے درمیان آبی تعاون پچھلے سو سال سے جاری ہے۔
1921 میں روسی نژاد صیہونی انجینئر نے برطانیہ اور ہیشمائٹ حکام کو اس مقام پر ہائیڈرو پاور اسٹیشن قائم کرنے پر قائل کیا تھا جہاں یرموک کا معاون دریا دریائے اردن سے ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بحیرہ مردار خشک ہورہا ہے؟
1948 میں جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد جب یہ دونوں اقوام ایک دوسرے کی دشمن بن گئی تھیں، تب بھی اردن اور اسرائیل کے درمیان پانی کے معاملے پر تعاون ہوا تھا جس نے 1994 کے امن معاہدے میں مدد فراہم کی تھی۔
اسرائیل کی واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی کے ترجمان اِتائی دودی کا کہنا تھا معاہدے کے تحت اسرائیل نے اردن کو سال بھر کے لیے کم داموں پر 4 کروڑ 50 لاکھ کیوبک میٹر پانی فروخت کرنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ یرموک کی صورتحال کے مطابق مزید پانی خریدنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔
منگل کو ہونے والے معاہدے میں اردن کو ایک سال کے لیے 65 سینٹ فی کیوبک میٹر کے حساب سے اضافی پانی خریدنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ اگلے دو سال تک اسی مقدار میں لیکن کچھ زیادہ قیمت میں پانی خرید سکتا ہے۔
اتائی دودی کا کہنا تھا کہ ‘یہ حقیقی قیمت ہے اور یہ پانی کی لاگت ہے، یہ پانی گلیلی کے سمندر سے آئے گا‘۔
اردن کو، جس کا بیشتر حصہ زمین پر مبنی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پانی کی شدید مسائل کا سامنا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک سنچری فاؤنڈیشن نے دسمبر میں رپورٹ میں لکھا تھا کہ ‘کچھ اقدامات کی وجہ سے پانی کے معاملے میں اردن اب دنیا کا دوسرا غیر محفوظ ملک ہے’ ۔
مزید پڑھیں: اسرائیل سے معاہدہ کرکے یو اے ای نے عالم اسلام، فلسطینوں کے ساتھ غداری کی، ایران
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘توقعات کے مطابق سال 2025 تک اردن میں پانی کی ضروریات اس کے وسائل سے 26 فیصد زیادہ ہوجائے گی‘۔
اسرائیل بھی ایک گرم اور خشک ملک ہے لیکن اس کی پانی سے نمک نکالنے کی ٹیکنالوجی اسے پانی فروخت کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
یہ معاہدہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دور میں دوطرفہ تعلقات میں سرد مہری کے بعد سامنے آیا ہے۔
رواں سال جون میں اقتدار سنبھالنے والے نفتالی بینیٹ نے ترجیحی بنیاد پر عَمان سے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔
اسرائیل، سابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی زیر قیادت کرائے جانے والے نام نہاد ابراہم معاہدے کے تحت 4 دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لاچکا ہے۔
تاہم فلسطینیوں کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کے معاملے پر مذاکرات تاحال سرد مہری کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاق
اسرائیلوں کو بسانے کے منصوبے کے سابق سربراہ نفتالی بینیٹ، فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی نہیں ہیں۔
دودی کا کہنا تھا کہ اردن کے ساتھ معاہدہ فلسطینیوں کو پانی تک رسائی کی اجازت نہیں دے گا۔
غزہ میں زیادہ پمپنگ اور آلودگی نے زیر زمین پانی کو تقریباً ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔