• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

وزیراعظم موجودہ آئی ایس آئی سربراہ کو چند ماہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی

شائع October 13, 2021
وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس معاملے پر تفصیلی ملاقات ہوئی، پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر — فائل فوٹو / پی آئی ڈی
وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس معاملے پر تفصیلی ملاقات ہوئی، پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر — فائل فوٹو / پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے منگل کو وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پڑوسی ملک افغانستان کی نازک صورتحال کی وجہ سے مزید کچھ عرصے کے لیے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل رہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس معاملے پر تفصیلی ملاقات ہوئی۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد اپنے پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے تقرر کا معاملہ حل ہوگیا ہے اور وزیر اعظم کو قانون اور آئین کے مطابق خفیہ ایجنسی کا سربراہ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

ملاقات کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور عامر ڈوگر نے کہا کہ وزیر اعظم، افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے، قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے، فواد چوہدری

عامر ڈوگر نے کہا کہ عمران خان کی رائے تھی کہ حکومت تمام اداروں کو آن بورڈ لینا چاہتی ہے، ’وزیر اعظم کی باڈی لینگویج کافی مثبت ہے اور وہ پراعتماد لگ رہے ہیں‘۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کو بتایا ہے کہ وہ ایک منتخب وزیر اعظم اور ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے آئینی اور قانونی طریقہ کار کے بارے میں عامر ڈوگر نے وضاحت کی کہ وزیراعظم کو تین ناموں کے ساتھ ایک سمری بھیجی جانی تھی جس میں سے انہوں نے ایک کو منتخب کیا جسے وہ اس عہدے کے لیے موزوں سمجھتے تھے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ یہ سمری متعلقہ دفتر کو آج جاری کی جائے گی یا نہیں۔

سول اور عسکری قیادت کے درمیان اس معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی خبریں گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں تاہم منگل کو باقاعدہ میڈیا پر شائع ہونے کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری حکومت کے نقطہ نظر کو واضح کرنے پر مجبور ہو گئے۔

پریس کانفرنس میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’وزیر اعظم کو ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کا اختیار ہے اور انہوں نے اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے تفصیلی ملاقات کی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت، انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل کے تقرر پر قانونی اور آئینی طریقہ کار پر عمل کرے گی‘۔

وفاقی وزیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ وزیر اعظم آفس یا فوجی سیٹ اپ سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جس سے ایک دوسرے کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔

اس معاملے کے بارے میں گردش کرنے والی افواہوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں، بہت سے لوگ ہیں جن کی کچھ خواہشات ہیں، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم آفس کبھی بھی پاک فوج اور آرمی چیف کے احترام کو مجروح نہیں کرے گا اور آرمی چیف اور فوج کبھی بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جو پاکستان کے وزیراعظم یا سول سیٹ اپ کے احترام کو مجروح کرے‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم اور عسکری قیادت دونوں قریبی ہم آہنگی میں ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں اس پر متفق ہیں اور وزیر اعظم کو اس کا اختیار ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ہم ایک پیج پر ہیں، معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا، وزیر اعظم

فواد چوہدری نے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے معاملے کو ’سنسنی خیز‘ نہ بنانے پر میڈیا کی تعریف کی۔

واضح رہے کہ اس وقت آئی ایس آئی کے آنے والے سربراہ کے تقرر کے لیے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔

جب ڈان نے ان سے سوال کیا کہ انہیں کس چیز نے یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ حکومت آئین اور قانون کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کرے گی تو فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ’میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا کی طرف سے پیدا ہونے والے ابہام نے انہیں اس معاملے پر جواب دینے پر مجبور کیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس مسئلے پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتا، صرف پریس کانفرنس میں میرے بیان پر بھروسہ کریں‘۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان قریبی روابط ہیں، نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر میں قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا جس کے لیے دونوں (جنرل قمر باجوہ اور وزیر اعظم) متفق ہیں۔

آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے، تاہم اسپائی ماسٹر کا انتخاب وزیراعظم نے آرمی چیف کی مشاورت سے کیا ہے۔

دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے تقرر کے طریقہ کار کا نہ تو آئین میں ذکر ہے اور نہ ہی آرمی ایکٹ میں اور تمام سابقہ تقرریاں روایات کے مطابق کی گئی تھیں جس کے تحت آرمی چیف نے وزیراعظم کو تین نام تجویز کیے جس پر پھر حتمی فیصلہ کیا گیا۔

گزشتہ ہفتے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے اعلان کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل حمید جو کہ پہلے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، پشاور کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیے گئے تھے۔

تاہم آئی ایس پی آر کے اعلانات کے بعد کئی دن گزرنے کے باوجود لیفٹیننٹ جنرل انجم کی نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تقرر کی تصدیق کا نوٹی فکیشن وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت میں قیاس آرائیوں کا آغاز ہوا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان

حکومت اس معاملے پر خاموش رہی اور آخر کار وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان طویل ملاقات کے بعد خاموشی توڑ دی گئی۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ وزیر اعظم خان اور آرمی چیف نے کل رات اس معاملے پر بات چیت کے لیے طویل ملاقات کی جس کے بعد وزیر اعظم نے کابینہ کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا۔

پیر کو جب وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے میڈیا سے بات چیت میں اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے واضح جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وزیر اطلاعات سول ملٹری مسائل پر بات کرنے کے مجاز ہیں۔

دریں اثنا سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے لیے ممکنہ افراد کے ناموں کے ساتھ ایک سمری ان کو بھیجی جائے اور ان تینوں میں سے کسی کو ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر منتخب کرنا ان کا اختیار ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024