طالبان سے مذاکرات دو ٹوک اور پیشہ ورانہ رہے، امریکا
واشنگٹن: امریکا نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہفتے کے آخر میں ہونے والے مذاکرات دوٹوک اور پیشہ ورانہ رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست کے اواخر میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ امریکی انتظامیہ کی طالبان سے پہلی ملاقات تھی۔
پیر کے روز امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ 9 اور 10 اکتوبر کو ایک امریکی وفد نے طالبان کے سینئر نمائندوں سے ملاقات کے لیے قطر کے دارالحکومت کا دورہ کیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان پہلے مذاکرات
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’امریکی وفد نے سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خدشات اور امریکی شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور ہمارے افغان شراکت داروں کے محفوظ انخلا پر توجہ مرکوز کی‘۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکی حکام نے انسانی حقوق بشمول افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی بامعنی شرکت پر بھی توجہ مرکوز کی۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ ’دونوں فریقین نے براہ راست افغان عوام کو انسانی بنیادوں پر امریکی امداد کی فراہمی پر بھی تبادلہ خیال کیا’۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی امریکی وفد سے بات چیت واضح اور پیشہ ورانہ تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ طالبان سے متعلق فیصلہ صرف اس کے الفاظ پر نہیں بلکہ ان کے اقدامات پر کیا جائے گا’۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی چیلنجز اور ان کا حل
تاہم نیڈ پرائس نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں فریقین کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہے یا نہیں۔
اگرچہ، طالبان حکام نے مذاکرات کے بعد مختلف میڈیا اداروں سے گفتگو کی مگر انہوں نے بھی چند تفصیلات بیان کی تھیں۔
قبل ازیں طالبان کی قیادت نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملاقات ’اچھی رہی ‘ اور تسلیم کیا کہ امریکا، افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرتا رہے گا لیکن وہ طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گا۔
میڈیا سے علیحدہ گفتگو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان کے نئے رہنما اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ دہشت گردی دوبارہ افغانستان میں جڑ نہ پکڑے۔
ان کا مذکورہ بیان داعش (خراسان) گروپ کی جانب سے افغانستان کی مسجد میں نماز کے دوران کیے گئے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے 2 روز بعد سامنے آیا جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہفتے کے روز امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اور عہدیدار نے امریکا- طالبان ملاقات کو اہم قومی مفاد کے معاملات پر طالبان کے ساتھ واشنگٹن کی ’حقیقت پسندانہ مصروفیت’ کا تسلسل قرار دیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا حکومت سنبھالنے کے بعد کابل سے باہر پہلا عوامی جلسہ
تاہم امریکی عہدیدار نے واضح کیا تھا کہ یہ ملاقات طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح ہیں کہ کوئی بھی قانونی حیثیت، طالبان کو اپنے اقدامات سے حاصل کرنی چاہیے۔
عہدیدار نے بتایا کہ امریکی وفد میں محکمہ خارجہ، یو ایس ایڈ اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے عہدیدار شامل تھے جنہوں نے دوحہ میں طالبان کے سینئر نمائندوں سے ملاقات کی۔
تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون سے سرکاری ایجنسیوں کے عہدیدار شریک تھے لیکن دوحہ کی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی وفد میں انٹیلی جنس حکام بھی شامل تھے۔