• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا

شائع October 10, 2021
پولیس نے 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا--فوٹو: اے ایف پیی
پولیس نے 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا--فوٹو: اے ایف پیی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز نے بدترین کارروائی کرتے ہوئے 500 افراد کو گرفتار کرلیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرکاری فورسز نے حملوں اور قتل کے واقعات کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں کی اور سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی رہنما قاتلانہ حملے میں ہلاک

مقبوضہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں رواں ہفتے تین ہندو اور ایک سکھ شہری کو قتل کیا گیا تھا اور اچانک پیدا ہونے والی کشیدگی پر بھارت نواز اور بھارت مخالف دونوں سیاسی رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔

مقامی پولیس نے الزام عائد کیا کہ قتل کی وارداتوں میں بھارت کے خلاف خطے میں دہائیوں سے لڑنے والے جنگجو ملوث ہیں۔

عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ تین روز کے دوران پوری کشمیر ویلی سے 500 سے زائد افراد کو تفتیش کے لیے گرفتار کیا ہے، جن میں سے اکثریت کا تعلق سری نگر سے ہے۔

پولیس نے بتایا کہ دی ریزسٹینس فورس (ٹی آر ایف) سے تعلق رکھنے والے افراد نے فائرنگ کی اور گزشتہ ہفتے 7 افراد کو قتل کیا اور اس کے رواں برس اب تک اس طرح کے حملوں میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد 28 ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد میں 21 مسلمان تھے جبکہ 7 افراد کا تعلق اقلیتی ہندو برادری اور ایک کا تعلق سکھ برادری سے تھا۔

پولیس افسر دلبر سنگھ نے حال ہی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ قتل کی وارداتیں خطے میں دہشت پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی سازش ہے۔

دو روز قبل ٹی آر ایف نے سوشل میڈیا میں ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ گروپ ان افراد کو نشانہ بنا رہا ہے جو بھارتی حکام کے لیے کام کر رہے ہیں اور عقیدے کی بنیاد پر نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019: بھارت میں اقلیتوں کیلئے خوف و تشدد کی علامت کا ایک اور برس

گروپ کے بیان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

خیال رہے کہ ٹی آر ایف بھارتی حکومت کی جانب سے 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ریاست کا درجہ دینے کے بعد وجود میں آگئی تھی۔

بھارت نے اس متنازع اقدام کے بعد مقبوضہ خطے میں طویل عرصے تک سیکیورٹی انتہائی سخت کی تھی اور رابطے کے تمام ذرائع منقطع کر دیئے تھے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اور قیادت کو بھارتی حکومت کے قوانین پر سخت تشویش ہے کہ وہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کے درپے ہیں کیونکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ خطے کے حوالے سے کئی نئے قوانین بھی بنائے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے پیش آنے والے واقعات کے بعد اقلیتی برادریوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے اور کئی خاندانوں نے علاقے سے ہجرت کی ہے، قتل ہونے والے افراد میں کشمیر کا ایک مشہور ہندو کیمسٹ، ہندو اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دو اسکالرز اور بھارت کی مشرقی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والا ایک مزدور شامل تھا۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہونے والی کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے گئے افراد میں مذہبی گروپس، بھارت مخالف کارکنوں، بھارت مخالف اور حریت پسند جنگجوؤں کے ہمدرد بھی شامل ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے قبضے کے خلاف 1989 سے جدوجہد میں تیزی آئی ہے اور جہاں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق شہریوں کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے لیے ووٹنگ ہوگی جبکہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024