امریکا کابل حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہے، افغان وزیر خارجہ
دوحہ: افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان مفتی نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ فوجی انخلا کے بعد اپنے مذاکرات کے دوران افغان حکومت کو ’غیر مستحکم‘ کرنے سے باز رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قطری دارالحکومت میں بات چیت کے بعد امیر خان مفتی نے افغان سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہم نے انہیں واضح طور پر بتایا کہ افغانستان میں حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کسی کے لیے بھی اچھی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف مذاکرات جاری رہیں گے، امریکا
امیر خان مفتی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات سب کے لیے بہتر ہیں، افغانستان میں موجودہ حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جانا چاہیے جو لوگوں کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
افغان وزیر خارجہ کا بیان امریکی محکمہ خارجہ کے نائب خصوصی نمائندہ ٹام ویسٹ اور یو ایس ایڈ کی اعلیٰ انسانی اہلکار سارہ چارلس کی سربراہی میں ایک امریکی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر آیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کووڈ 19 کے خلاف افغانوں کو ویکسین دینے میں بھی مدد کرے گا۔
امریکا کی جانب سے امیر خان مفتی کے بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
افغان وزیر خارجہ کہا کہ امریکا کے وفد نے فیصلہ کیا کہ وہ ویکسینیشن اور انسانی تعاون فراہم کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں گی اور صبر کریں گی جبکہ افغانستان بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان جنگ کے نتائج کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے، وزیر اعظم
تاہم دونوں فریقین کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات سے پہلے طالبان نے امریکا کے ساتھ افغانستان میں انتہا پسند گروہوں پر قابو پانے کے لیے تعاون کو مسترد کر دیا تھا اور ایک اہم مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان میں تیزی سے سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہوگا۔
سہیل شاہین نے کہا کہ ہم داعش سے آزادانہ طور پر نمٹنے کے قابل ہیں۔
معاشی بحران
علاوہ ازیں افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جہاں بین الاقوامی امداد بند، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور بے روزگاری کی سطح غیرممعولی طور پر بڑھ چکی ہیں۔
امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان، افغانستان کی مشکلات پر بات چیت کے لیے دوسرے ممالک اور امریکا کے ساتھ ملاقاتیں کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اس طرح کی ملاقاتیں اور مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک دوسرے کی رائے سن رہے ہیں۔
امیر خان مفتی نے کہا کہ افغانستان کے لوگ جو معیشت سمیت دیگر مسائل کا سامنا کررہے ہیں، وہ حل ہونے چاہیے، افغانستان کی موجودہ حکومت دیگر ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ ان کے لوگوں کو سہولیات اور انہیں خدمات فراہم کی جائیں۔
مزیدپڑھیں: جنگی جرائم کی تحقیقات: 'توجہ امریکا کے بجائے طالبان اور داعش پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں'
انہوں نے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کے ساتھ ان علاقوں پر بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مذاکرات کے دوران طالبان کے نمائندوں نے امریکا سے کہا کہ وہ افغان مرکزی بینک کے ذخائر پر سے پابندی ہٹائے۔
افغان وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغان وفد اور امریکی ہم منصبوں نے دونوں ممالک کے درمیان ’تعلقات پر مبنی ایک نئے باب‘ پر تبادلہ خیال کیا۔
مذاکرات سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس کی ترجیحات امریکا اور دیگر شہریوں کے لیے محفوظ راستہ حاصل کرنا ہے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ طالبان افغان سرزمین پر ’دہشت گردوں‘ کو کام کرنے کی اجازت نہ دیں۔