پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف مذاکرات جاری رہیں گے، امریکا
اسلام آباد: ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو جاری رکھے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی آرشرمن نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بے شک ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔
مزیدپڑھیں: امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان سے قبل دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
انہوں نے زور دیا کہ امریکااور پاکستان کے سیکیورٹی تعاون اور ہمارے فوجی رہنماؤں کے درمیان گہرے ذاتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے، یہ دونوں ہماری انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لازمی جزو ہیں۔
وینڈی آرشرمن نے انسداد دہشت گردی تعاون کے حوالے سے اسلام آباد سے واشنگٹن کی توقعات کی وضاحت نہیں کی لیکن اس امر پر زور دیا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانا چاہے گا کہ ’پاکستان، افغانستان یا خطے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردی نہیں ہے‘۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان میں دو روزہ قیام کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی۔
انہیں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملنے کی توقع تھی لیکن ملاقات ممکلن نہیں ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں: جنگی جرائم کی تحقیقات: 'توجہ امریکا کے بجائے طالبان اور داعش پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں'
سینئر امریکی عہدیدار جو بھارت کے دورے کے بعد یہاں پہنچی تھیں، ممبئی میں پاکستان کے بارے میں منفی ریمارکس کی وجہ سے انہیں معمولی نوعیت کا استقبال کیا گیا۔
انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ اب واشنگٹن، پاکستان کے ساتھ ’وسیع البنیاد تعلقات‘ کی صورت نہیں دیکھتا اور وہ افغانستان پر بات چیت کے ’مخصوص اور تنگ مقصد‘ کے ساتھ پاکستان جارہی ہوں۔
امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی آرشرمن کی دفتر خارجہ آمد پر ڈائریکٹر جنرل (امریکا) فواد شیر نے استقبال کیا۔
بعدازاں وینڈی آرشرمن نے صحافیوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں ’وسیع پیمانے پر مشتمل مسائل پر پاکستان کے ساتھ کئی دہائیوں پرانے تعلقات‘ پر زور دیتے ہوئے بھارت میں دیے گئے اپنے بیان پر مکر گئیں۔
اس نے اسلام آباد میں اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ انہوں نے جیو اکنامکس، صاف توانائی، سی او پی 26، کووڈ 19 کے خلاف تعاون پر بھی بات کی۔
یہ بھی پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس دورے کے دوران دو طرفہ تعاون صرف ایک طرفہ تھا اور یہ دورہ افغانستان میں ہونے والی ترقی کے بارے میں ’بنیادی طور پر بات چیت‘ کے لیے تھا اور دونوں ممالک اس کے قریب کیسے آ رہے تھے۔
وینڈی آرشرمن نے مزید کہا کہ یہ خاص دورہ دراصل گہری مشاورت پر مشتمل ہونا تھا کہ ہم افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر کیسے کیا سوچتے ہیں۔
انہوں نے طالبان کے اقدامات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے اقدامات ان وعدوں سے بہت کم ہیں‘۔ وینڈی آرشرمن نے پاکستان میں اپنی ملاقاتوں کو ’تعمیری اور نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی وزیر اعظم عمران خان کو فون کال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مکمل طور پر سمجھتے ہیں کہ ہر ملک امریکی صدر سے فون کال وصول کرنا چاہتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ بعد میں ہونے کی بجائے جلد ہوگا۔
خیال رہے کہ صدر جوبائیڈن نے جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان خان سے بات نہیں کی۔
تاہم افغانستان میں تعاون کے لیے حکام کی سطح پر رابطے جاری ہیں۔