نیب کی درخواستوں اور ریفرنسز کی کارروائی میں 'صدارتی آرڈیننس' حائل
قومی احتساب بیورو (نیب) کے بارے میں جاری صدارتی آرڈیننس نے بیورو سے متعلق ریفرنسز اور ضمانت کی درخواستوں پر ہموار کارروائی میں خلل ڈالنے کا کام کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) سے متعلق مقدمات میں زیر التوا درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لیے نیب پراسیکیوٹرز اور سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک سے مدد مانگی ہے۔
خیال رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع سے متعلق آرڈیننس جاری کیا جو کاروباری برادری، بیوروکریسی، وفاقی اور صوبائی کابینہ اور ان کی کمیٹیوں کو این اے او کے دائرہ اختیار سے خارج کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک موجودہ چیئرمین کام جاری رکھیں گے، فروغ نسیم
یہ آرڈیننس احتساب عدالتوں کو نیب کیسز کا سامنا کرنے والے ملزمان کو ضمانت دینے کا اختیار بھی دیتا ہے اور میگا کرپشن اسکینڈلز کے علاوہ مالیاتی جرائم کو بھی نیب کے دائرہ کار سے نکالتا ہے۔
این اے او 1999 میں حراست میں ملزم کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں اور ملزم صرف 90 روزہ ریمانڈ کے بعد ہی ضمانت کے لیے درخواست دے سکتا ہے اور وہ بھی ہائی کورٹ میں دے گا۔
البتہ نئے آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کے تحت احتساب عدالت کے علاوہ کسی بھی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ احتساب عدالت میں زیر سماعت مقدمے میں کسی ملزم کو ضمانت دے یا اسے رہا کرے۔
مزید پڑھیں: 'وزیراعظم نے نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر مشاورت سے منع کردیا ہے'
چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ہائی کورٹ ڈویژن بینچ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی امریکی جائیدادوں کے ریفرنس میں ضمانت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ آرڈیننس کے اجرا کے بعد ٹرائل کورٹ ضمانت کے لیے مجاز فورم ہے۔
پراسیکیوٹر نے تجویز دی کہ ضمانت کی تمام درخواستیں صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں خارج کردی جائیں۔
دوسری طرف ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے تجویز دی کہ اس سے تمام ہائی کورٹس میں زیر التوا درخواستوں کے لیے مثال قائم ہوگی۔
بعد ازاں عدالت نے نیب پروسیکیوشن اور ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ وہ 9 نومبر تک اس معاملے پر اپنے تاثرات پیش کریں۔