کووڈ کے مریضوں کے ہاتھوں اور پیروں میں عجیب نشانات کی وجہ دریافت
کووڈ کے مریضوں میں جلد کا ایک عام مسئلہ ممکنہ طور پر وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔
کووڈ ٹو (Covid toe) ہاتھوں اور پیروں پر سرخ اور سوجن کی شکار جلد کے ایسے حصے ہوتے ہیں جن میں خارش محسوس ہوتی ہے اور کئی بار یہ مسئلہ مہینوں تک برقرار رہتا ہے۔
عام طور پر یہ نشانی کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد ایک سے 4 ہفتوں کے دوران ظاہر ہوتی ہے ہے اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں یا ان کی رنگت بدل جاتی ہے۔
اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کووڈ کے مریضوں کی اس علامت کی وجہ کیا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق پر اس کی وجہ سامنے آئی ہے۔
طبی جریدے برٹش جرنل آف ڈرماٹولوجی میں شائع تحقیق میں اس مسئلے کے شکار 50 مریضوں کے ساتھ اس وبا سے قبل اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے 13 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ اس مسئلے کے پیچھے جسم کا مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جس کے دوران بہت زیادہ مقدار میں مخصوص اینٹی باڈیز بنتی ہیں، جو وائرس کے ساتھ ساتھ مریض کے خلیات اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کی شریانوں میں موجود مدافعتی خلیات کووڈ ٹو میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ کووڈ کے مریضوں کے اس مسئلے کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا مگر ہماری تحقیق میں نئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
اس سے پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کووڈ کی غیر تصدیق شدہ علامات میں سے ایک ہے جس کے شکار افراد کے ہاتھوں یا پیروں میں سرخ یا جامنی رنگ کے نشانات ابھر آتے ہیں۔
مگر اب محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اور پیروں میں یہ نشانات اکثر بغیر علامات والے مریض بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق مسئلے کی وجہ معلوم ہونے کے بعد اس کے علاج کے لیے زیادہ مؤثر حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔
اس سے قبل مئی میں نگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا تھا کہ ناخنوں میں عجیب نشان بن جانا کچھ عرصے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔
پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔
انہوں نے نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں صحتیابی کے بعد چند ماہ کے اندر ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں پر افقی لکیریں ابھر سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں متعدد افراد سے کووڈ نیلز کی رپوورٹس زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ میں موصول ہوئی ہیں۔
پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ناخنوں پر اس طرح کے اثرات غیرمعمولی نہیں کیونکہ دیگر بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔
ماہرین کے خیال میں کسی بیماری کے خلاف نگ کے دوران پیدا ہونے والا تناؤ ناخنوں پر اس طرح کی لکیروں کا باعث بنتا ہے۔
اس عرصے میں ناخن بڑھتے نہیں اور پروفیسر ٹم کے مطابق یہ نشان ایک درخت کی طرح کسی ایونٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔
برٹش ایسوسی آف ڈرماٹولوجسٹ کی صدر ڈاکٹر تانیہ بیکر نے بتایا کہ جلدی امراض کے ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ناخنوں میں افقی لکیروں کو دیکھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بار یہ تمام ناخنوں میں ہوتی ہے اور کئی بار یہ اثر صرف پیروں کے انگوٹھوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کی لکیریں بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتیں اور عموماً بیماری کے کئی ماہ بعد ابھرتی ہیں۔
پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ یہ تو واضح نہیں کہ ناخنوں میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق بیماری کی شدت سے ہے۔
عموماً دیگر امراض میں بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے، ناخنوں پر نشان کا امکان اتنا زیادہ ہوتا ہے۔
پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ناخنوں میں تبدیلیاں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا اشارہ ہوں، مگر ابھی کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ناخنوں کی تبدیلیاں ماضی میں کورونا سے متاثر ہونے کی نشانی ہے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ لوگ ماضی میں اس بیماری کا شکار ہوئے تھے یا نہیں۔