• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

ایک شخص کی حرکات کو اداروں کے ساتھ نہ جوڑا جائے، مریم نواز

شائع October 6, 2021
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اسلام آباد میں میڈیا سےگفتگو کر رہی ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اسلام آباد میں میڈیا سےگفتگو کر رہی ہیں - فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ادارے ملک کی قوت ہیں لیکن جب کوئی ان اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ اداروں کی کوئی خدمت نہیں کرتا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'جسٹس شوکت صدیقی کی ویڈیو ریکارڈ پر ہے، اس کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل میں انہوں نے دستخط کے ساتھ بیان حلفی جمع کرایا جو قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جنرل فیض حمید نے نہ صرف میرے خلاف کیس بنایا بلکہ سزا کی بھی یقین دہانی کرائی اور اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ کوئی ایسا بینچ نہ بنے جو 2018 کے الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت دے دے'۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے درخواست

انہوں نے کہا کہ 'اگر ہمیں ضمانت مل جاتی تو ان کی 2 سال کی محنت ضائع ہوجاتی، ان کی 2 سال کی محنت یہ تھی کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو پاناما کیس میں جے آئی ٹی میں پیش کیا جائے، اس کے بعد انہیں پاناما کے بجائے اقامہ پر نکال دیا گیا، پھر ان کے رہنماؤں کو مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرنے کا کہا گیا اور جنہوں نے بات نہیں مانی انہیں سزا دی گئی اور ان کے خلاف بھی کیسز بنائے گئے'۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'میرے خلاف مقدمہ جنرل فیض کا بنایا ہوا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ نیب نے بغیر مشاورت کے ریفرنس کی منظوری دی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میڈیا کی مجبوریاں جانتی ہوں کہ وہ میرا بیان نہیں چلاسکتا اور چند نے لکھا کہ مریم نواز نے پاکستان کے ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ایک شخص کی حرکات کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نواز شریف کے ساتھ اس طرح کا رویہ تھا کہ ان کی ذاتی رنجش کی بو آنے لگی تھی اور ہر مرتبہ ان کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ کیس کا جرمانہ وصول کرنے کیلئے نیب کا نواز شریف کے اثاثے فروخت کرنے کا حکم

مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'جسٹس عظمت سعید نے جو باتیں کیں، ہمیں گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہا، یہ ہمارے چہرے پر داغ نہیں یہ داغ ان کے اپنے کردار پر لگے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ان کے پیچھے کون تھا میں نے آج واضح کردیا، میڈیا قصور وار نہیں کہ وہ میری پوری درخواست نہیں چلاسکی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں چاہتی ہوں کہ میڈیا پر یہ پریشر ہمیشہ نہ رہے، یہ جنگ عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے بھی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'دو سال کی جنرل فیض حمید کی محنت سے قبل کا پاکستان اور ان کی محنت کے بعد کا پاکستان دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کسی جنگ سے آیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں عوام مہنگائی کا شکار ہے تو ملک سے باہر تنہائی اور رسوائی کا'۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'پینڈورا پیپرز سامنے آگئے ہیں اب کہاں ہیں وہ درخواست گزار جو پاناما پیپرز کی درخواست سپریم کورٹ میں لے گئے تھے'۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی اپیلیں خارج کرنے کیلئے نیب کی استدعا مسترد

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہمیں وہ ماحول نظر کیوں نہیں آرہا، جس انسپیکشن کمیشن کو آپ خود چلارہے ہوں وہ آپ کے اے ٹی ایم کے بارے میں کیا تحقیقات کرے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'آپ لوگ کہتے تھے کہ نواز شریف امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتا ہے تو، میری درخواست کے ذریعے قوم کو واضح ہوگیا کہ عمران خان نے امپائر کو ساتھ ملا کر حکومت کو گرایا اور اس امپائر کا نام جنرل فیض حمید ہے'۔

جنرل فیض حمید کے بارے میں آرمی چیف کو شکایت کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے پٹیشن میں تمام باتیں سامنے آگئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حقائق اور گواہ قوم کے سامنے ہیں اور اُمید ہے کہ مجھے اس پر انصاف ملے گا'۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'شوکت عزیز صدیقی کو ہٹایا گیا، قاضی فائز عیسیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کررہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی گناہ میں ملوث ہیں اور یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اگر ایسا کچھ ہوا تو کسی بھی عدالت میں یہ برقرار نہیں رہے گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ڈیل کا حصہ ہوگا کہ دشمنوں کو نشانہ بنائیں اور ہم آپ کو توسیع دیں گے'۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024