نئے چیئرمین نیب کے بارے میں مشاورت پر حکومت مشکل میں
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے اگلے چیئرمین کی تعیناتی پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے معاملے پر حکومتی حلقوں میں الجھن پائی جارہی ہے کیوں کہ اس ایک معاملے پر کابینہ کے 3 اراکین نے متضاد بیانات دیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی پر وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کریں گے اور آج (بدھ کے روز) ایک آرڈیننس نافذ کیا جائے گا جس کے تحت موجودہ چیئرمین اپنے جانشین کے تقرر تک کام جاری رکھیں گے۔
تاہم اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ایک ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم اس سلسلے میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حالانکہ مفادات کا تصادم ہے لیکن اگر شہباز شریف، جو نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، مشاورت کرتے ہیں تو یہ اب ان پر منحصر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم سے مشورہ کرنا چاہیے یا نہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: نیب سربراہ کا تقرر: قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے آرڈیننس متعارف کرایا جائے گا، فواد چوہدری
انہوں نے کہا کہ پہلے یہ تجویز دی گئی تھی کہ شہباز شریف سے مشاورت نہیں کی جانی چاہیے لیکن بعد میں حکومت نے محسوس کیا کہ اگر انہیں مشاورت کی اجازت نہ دی گئی تو اپوزیشن اسے یکطرفہ فیصلہ قرار دے گی۔
وزیر قانون نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام بھی بیورو کے نئے چیئرمین کے طور پر زیر غور ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے آرڈیننس کے تحت ٹرائل کورٹس (احتساب عدالتیں) کو ضمانت دینے یا مسترد کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔
قبل ازیں وزیر قانون کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں موجودہ چیئرمین کو ایک آرڈیننس کے ذریعے نئے چیئرمین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کی اجازت دینے کے لیے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم پر غور کیا گیا۔
مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع کیلئے سمری کی تیاری شروع
ادھر فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر (شہباز شریف) کو تبدیل کرے کیونکہ وہ متعدد بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ہیں تاکہ کوئی نیا قائد حزب اختلاف، وزیر اعظم کے ساتھ مشاورت کر سکے اور آئینی شرط پوری کی جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ اپوزیشن لیڈر کو تبدیل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو نئے چیئرمین کے تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو ایوان کے دونوں اطراف کے اراکین اسمبلی پر مشتمل ہو گی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چور اپنا تفتیشی افسر منتخب کرے‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح ہیں کہ ہم نیب کے چیئرمین کے تقرر پر ان (شہباز شریف) سے مشورہ نہیں کریں گے اور کل ہم ایک آرڈیننس متعارف کرائیں گے جس سے حکومت کی یہ رکاوٹ دور ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل نے چیئرمین نیب کو ہٹانے سے متعلق قانونی وضاحت طلب کرلی
دوسری جانب ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے کہا کہ قومی احتساب آرڈیننس کے تحت چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل احتساب (پی جی اے) کو ان کی مدت ختم ہونے پر کوئی توسیع نہیں دی جاسکتی اور انہیں سپریم کورٹ کے ججز کی برطرفی کی بنیاد پر ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن اس صورت میں بھی چیئرمین نیب اور پی جی اے کے مقدمات سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجے جاسکتے، وہ فورم جو ججز کو ہٹانے کا فیصلہ کرتا ہے۔
عرفان قادر نے بتایا کہ ان کے عہدے کی 3 سالہ مدت 2006 میں مکمل ہوگئی تھی اور اگلے پراسیکیوٹر جنرل دانشور ملک کے بعد انہیں دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل احتساب تعینات کیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ نے ’توسیع‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
علاوہ ازیں وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں تین کرپشن کیسز کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت کی اپیل ناقابل سماعت قرار
ان کا کہنا تھا کہ ان کا ایک (شہباز) کیس تقریباً تیار ہے اور فیصلے کے قریب ہے، دوسرا مقدمہ زیر سماعت ہے اور تیسرا مقدمہ زیر تفتیش ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے آرڈیننس میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کی شق کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن مفادات کے ٹکراؤ کے نظریے کی وجہ سے شہباز شریف کے ساتھ نہیں۔
ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ آرڈیننس کے نفاذ کے فوراً بعد حکومت اسے قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بل کی صورت میں پیش کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی متنازع نیب قوانین میں ترمیم کرنے کی یہ دوسری کوشش ہوگی، پہلے ایک کو سینیٹ میں اپوزیشن نے بلڈوز کیا تھا لیکن اب اپوزیشن کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری میں مدد کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کیلئے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے، فواد چوہدری
خیال رہے کہ موجودہ چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی چار سالہ مدت رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں ختم ہونے والی ہے، انہوں نے 10 اکتوبر 2017 کو عہدہ سنبھالا تھا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے اتفاق رائے پر پہنچنے کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا۔