بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کا وزیراعلیٰ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ، کل تک کی مہلت
کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض اراکین صوبائی اسمبلی و وزرا اور اتحادیوں نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال عالیانی کو کل شام 6 بجے تک مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دے دی ہے۔
صوبائی اراکین اسمبلی کی جانب سے یہ مطالبہ جام کمال کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے استعفے کے بعد سامنے آیا ہے جہاں جام کمال کو چند صوبائی وزرا اور پارٹی کے اراکین اسمبلی کی مخالفت کا سامنا ہے اور وہ وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، جام کمال خان کی وضاحت
رپورٹ کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کا مؤقف ہے کہ وہ جام کمال عالیانی کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے دیگر ناراض اراکین کے ہمراہ کوئٹہ میں منگل کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 14 سے 15 اراکین اور دیگر اتحادی جماعتوں کے چند اراکین نے وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس عدم اعتماد کی وجہ صوبے میں بڑھتی ہوئی بے چینی ہے'۔
ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ جام کمال کو پہلے ہم نے وزارت اعلیٰ سے استعفے کے لیے دو ہفتے دیے تھے لیکن 'استعفیٰ دینے کے بجائے انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہمارے درمیان اختلافات ہیں'۔
انہوں نے جام کمال کی ان ٹوئٹس کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 'بلوچستان عوامی پارٹی ہماری جماعت ہے اور انشااللہ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے، میں دوبارہ کہوں گا کہ یہ پاکستان کی سب سے زیادہ جمہوری جماعت ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اختلافات ہوتے ہیں، ہم ان پر بات کرتے ہیں، بحث ہوتی ہے اور الحمد اللہ اس کو حل بھی کرتے ہیں'۔
جام کمال نے کہا تھا کہ 3 اکتوبر تک پارٹی کے 6 اراکین سے بہت اچھے ماحول میں مل چکا ہوں اور انشااللہ ہم ان تمام مسائل کو حل کرلیں گے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے، وزیر سے قلمدان واپس لے لیا گیا
انہوں نے کہا تھا کہ 'چند افراد انفرادی طور پر اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو ردعمل دیں لیکن الحمداللہ ہم سب نے بڑی ذمہ داری اور ایک دوسرے سے احترام کا مظاہرہ کیا ہے'۔
صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے آج کی پریس کانفرنس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس طرح کے ماحول میں وزیراعلیٰ کے لیے بہتر ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔
بلوچستان کے وزیر برائے سماجی بہبود میر اسداللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ جام کمال عالیانی صوبائی حکومت میں اتحادیوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور ان سے استعفے کا مطالبہ صوبے کے وسیع تر مفاد میں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'جام کمال کو کل شام 6 بجے تک وقت دیا جائے گا، اگر وہ کل مستعفی نہیں ہوں گے تو عدم اعتماد کی تحریک سمیت دیگر آپشنز پر غور کیا جائے گا'۔
رکن صوبائی اسمبلی نصیب اللہ مری نے بھی اس موقع پر زور دیا کہ جام کمال مستعفی ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ پارٹی اور صوبے پر رحم کریں اور استعفیٰ دے دیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں سیاسی بحران پہلی مرتبہ رواں برس جون میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اپوزیشن نے صوبائی اسمبلی کے باہر جام کمال کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے خلاف کئی دنوں تک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص کرنے کے حوالے سے تھا۔
احتجاج بعد میں شدت اختیار کر گیا تھا اور پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے اپوزیشن کے 17 اراکین کو مقدمے میں نامزد کردیا تھا۔
بعد ازاں اپوزیشن نے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی تھی-
ڈان نے اس وقت رپورٹ دی تھی کہ جام کمال کو پارٹی کے اندر بھی بعض معاملات میں مخالفت کا سامنا ہے، خاص کر بھرتیوں اور تبادلوں پر وزرا کے اختیارات اور ان کو ترقیاتی فنڈز مختص کرنے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبائی وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی نے وزیراعلیٰ سے اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا اور دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے بھی ہائر ایجوکیشن کی وزارت سے استعفیٰ دیا تھا اور صوبائی اسمبلی میں وزیراعلیٰ سے اختلافات پر تلخ تقریر کی تھی۔
بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات کے باعث جام کمال نے گزشتہ ہفتے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، جہاں صوبے میں سیاسی بحران پیدا ہونے کے شدید خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور حالات اس نہج پر ناراض اراکین کی وجہ سے پہنچے اور جام کمال سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔