افغانستان: صوبہ قندوز کے ہائی اسکول میں طالبات کی واپسی
طالبان حکام اور اساتذہ نے کہا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبے میں متعدد اسکولوں میں لڑکیوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے لیکن ملک کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کا کلاس روم میں داخلہ ممنوع ہے۔
خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر ویڈیو پوسٹ کی جس میں درجنوں لڑکیوں کو سفید و سیاح اسکارف اور نقاب میں کرسیوں پر بیٹھے دیکھا گیا اور وہاں طالبان کا جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔
دوحہ میں موجود اقوام متحدہ میں طالبان کے مستقل نمائندے کے طور پر نامزد کیے گئے سہیل شاہین نے ٹوئٹ کیا کہ 'لڑکیاں صوبہ قندوز کے علاقے خان آباد میں ہائی اسکول جارہی ہیں'۔
لیکن کابل میں وزارت تعلیم کے عہدیدار محمد عابد نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کی مرکزی عبوری حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، ہائی اسکول اب بھی لڑکیوں کے لیے بند ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان
طالبان کو 1996 سے 2001 کے اقتدار کے دوران جابرانہ اورظالمانہ قوانین پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور کام پر پابندی کے باعث عالمی برادری کے غصے کا سامنا کر چکے ہیں۔
طالبان کی جانب سے ابتدا میں لڑکیوں کو پرائمری اسکول جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن سیکنڈری اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی واپسی پر اب بھی پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی سلامتی اور سخت شرعی قوانین کے تحت صنفی تفریق کو یقینی بنانے کے بعد لڑکیوں کو ہائی اسکول جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل
گزشتہ ماہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 'خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کے مسائل پر کام جاری ہے'۔
انہوں نے درکار وقت کے بارے میں معلومات فراہم کیے بغیر کہا تھا کہ 'جتنا جلد ممکن ہوگا، اسکول دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خواتین کے کام، ان کی خدمات اور ان کی ضروری تعلیم کے مسائل سے نمٹنے سے متعلق ہدایات میں مزید وقت درکار ہے کیونکہ اب نظام تبدیل ہوچکا ہے اور اب ملک میں اسلامی نظام ہے۔
خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے، سہیل شاہین
سہیل شاہین کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو کلپ میں 'افغان ریڈیو ٹیلی ویژن (آر ٹی اے)' کے رپورٹر کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ 'لڑکیوں کے لیے اسکول کھول دیے گئے ہیں اور یہاں کوئی پابندی نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج
طالبان کے رکن نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ضلعے میں ساتھیوں سے بارھویں جماعت کے بچوں اور بچیوں کے لیے اسکولز کھول دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تک کوئی مسائل پیش نہیں آئے۔
صوبہ قندوز کے دارالحکومت میں ایک ہیڈ ٹیچر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ضلعے کے ہائی اسکول میں لڑکیوں کو واپس کلاسز میں بھیج دیا گیا ہے۔
قندوز کے ایک اور استاد نے بتایا کہ ہائی اسکول میں لڑکیاں واپس آچکی ہیں۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر چوتھی جماعت کے ایک استاد نے بتایا کہ 'ہمارے پرنسپل نے قندوز کےایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کو آگاہ کرتے ہوئے ان سے ہدایات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی'۔
انہوں نے ایک جواب دیا کہ 'لڑکیوں کے اسکول جانے پر صرف دوسرے صوبوں میں پابندی لگائی گئی اور قندوز میں ایسا کچھ نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: خواتین کی ملازمت پر نئے احکامات، 'اس سے بہتر تو میں مرسکتی'، افغان خاتون
طالبان کی جانب سے خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
گروپ کی جانب سے گزشتہ دور حکومت میں بھی سخت قوانین کا اطلاق کیا گیا تھا اور اس بار کہا گیاتھا کہ خواتین کے حقوق میں 'شرعی قوانین کے فریم ورک' کے ساتھ پیش رفت کا احترام کیا جائے گا۔
منگل کو عالمی یوم اساتذہ پر یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ کچھ لڑکیاں سیکنڈری اسکول سے واپس آرہی تھیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال کے ملک میں واقع دفتر نے خواتین کی مدد، حفاظت کا مطالبہ اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ 'افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں خواتین اساتذہ اہم کردار کرتی ہیں'۔