کابل دھماکے کے چند گھنٹے بعد شدت پسند تنظیم داعش کے سیل کو تباہ کردیا تھا، طالبان
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغان دارالحکومت میں مسجد پر حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی شدت پسند تنظیم داعش کے ایک سیل کو تباہ کردیا۔
طالبان نے 7 ہفتے قبل کابل پر قبضہ کرتے ہوئے افغانستان میں عبوری افغان حکومت قائم کی تھی لیکن پھر بھی اسے داعش کی علاقائی شاخ کے حملوں کا سامنا ہے۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ جنگجوؤں نے یہ کارروائی اتوار کی شام کابل کے شمال میں کی۔
انہوں نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'آپریشن کے نتیجے میں، جو فیصلہ کن اور کامیاب تھا، داعش کا مرکز مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اس میں موجود داعش کے تمام ارکان ہلاک ہو گئے'۔
عینی شاہدین اور اے ایف پی کے صحافیوں نے چھاپے کے وقت دارالحکومت میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں ایک بڑا دھماکا اور جائے وقوع پر آتشزدگی دکھائی دی تھی۔
کابل کے رہائشی اور سرکاری ملازم عبدالرحمٰن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کی خصوصی فورسز کی ایک بڑی تعداد نے علاقے میں کم از کم تین گھروں پر حملہ کیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا حکومت سنبھالنے کے بعد کابل سے باہر پہلا عوامی جلسہ
انہوں نے کہا کہ لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور اسلحہ کی آواز سے وہ رات بھر سو نہیں سکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان علاقے میں داعش کے جنگجوؤں کے پیچھے تھے، 'میں نہیں جانتا کہ کتنے مارے گئے یا گرفتار ہوئے لیکن لڑائی شدید تھی'۔
یہ آپریشن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کی عید گاہ مسجد میں نماز جنازہ کو نشانہ بنانے والے حملے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر دیکھی گئی جو گزشتہ ہفتے انتقال کر گئی تھیں۔
ایک سرکاری کلچرل کمیشن کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 5 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے، ہلاکتوں میں عام شہری اور طالبان دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے دھماکے کے سلسلے میں تین افراد کو گرفتار بھی کیا ہے'۔
مسجد پر حملہ
عہدیدار کے مطابق ایک آلہ مسجد کے داخلی دروازے پر رکھا گیا تھا اور دھماکا اس وقت ہوا جب سوگوار ذبیح اللہ مجاہد اور اس کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرنے کے بعد جا رہے تھے۔
مسجد میں موجود ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کو داخلی دروازے پر ہونے والا حملہ ایک خودکش حملہ آور نے کیا۔
مشرقی پھاٹک کے بالکل باہر زمین پر ایک گہرا گڑھا نظر آرہا ہے جہاں دھماکا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک دیوار میں گولیوں کے سوراخ بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کابل میں خواتین کا احتجاج، طالبان کی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ
عینی شاہد نے بتایا کہ طالبان کے اہلکاروں کا ایک گروپ بشمول سینئر شخصیات دھماکے کے بعد مسجد کے گراؤنڈ میں آگ کی زد میں آگئے تھے جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے کے بعد الجھن کا شکار دو طالبان یونٹس نے غلطی سے ایک دوسرے پر فائرنگ کی تاہم وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے اس بات کی تردید کی کہ وہاں کوئی فائرنگ ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک خودکش حملہ آور نے خود کو بھیڑ کے درمیان دھماکے سے اڑا دیا جس سے تین افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے۔
اے ایف پی کے رپورٹرز نے مسجد میں خون کے نشانات دیکھے۔
پیر کے روز ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن 'ابتدائی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ داعش سے وابستہ گروپس نے یہ حملہ کیا ہے'۔
طالبان اور داعش جسے اسلامک اسٹیٹ خراسان بھی کہا جاتا ہے، مذہب اور حکمت عملی کے مسائل پر مختلف ہیں جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان یہ لڑائی ہوئی۔