• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

پینڈورا پیپرز: میڈیا مالکان، فوجی افسران کے اہلِ خانہ، کاروباری افراد کے مزید ناموں کا انکشاف

شائع October 4, 2021
پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر عدنان آفریدی—تصاویر: اے ایف پی /این آئی ٹی
پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر عدنان آفریدی—تصاویر: اے ایف پی /این آئی ٹی

انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے پینڈورا پیپرز میں میڈیا گروپ کے مالکان سے لے کر فوجی افسران کے خاندان کے افراد اور تاجروں اور اعلیٰ عہدیداروں تک مزید پاکستانی افراد کی نشاندہی کی گئی ہے۔

پینڈورا پیپرز دنیا بھر کی اہم شخصیات کے خفیہ مالیاتی معاملات پر بڑی بین الاقوامی تحقیق ہے۔

یہ رپورٹ اتوار کو منظرِ عام پر لائی گئی تھی جس میں پی ٹی آئی حکومت کے چند اہم اور نمایاں ناموں کا پہلے ہی ذکر کیا جاچکا ہے جس میں سینیٹر فیصل واڈا اور وزیر خزانہ شوکت ترین شامل ہیں۔

انگریزی روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی اس بین الاقوامی تحقیق کا حصہ تھے جن کے مطابق پیپرز میں 700 پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔

دی نیوز کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ جنگ گروپ کے چیف ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، ڈان کے سی ای او حمید ہارون اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے سی ای او سلطان علی لاکھانی بھی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق میر شکیل الرحمٰن برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) میں بروک ووڈ وینچرز لمیٹڈ کے نام سے ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں، انہیں 17 اپریل 2008 کو حصص منتقل ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:'پینڈورا پیپرز': وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

جب دی نیوز نے ان سے رابطہ کیا تو وہ جواب دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی پہلے ہی ڈکلیئر کردی گئی ہے لہذا سوال کا جواب دینے کا کوئی جواز نہیں۔

جب تحقیقاتی سیل نے انہیں سوالنامہ بھیجا تو انہوں نے کہا کہ ’نہیں، یہ سچ نہیں ہے، میں کسی کمپنی کا مالک نہیں البتہ سال 2018 تک کمپنی میرے پاس تھی‘، جب ان سے بی وی آئی میں کمپنی قائم کرنے کے فیصلے کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں سرمایہ کاری کی پٌر کشش مراعات تھیں‘۔

سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی کمپنی متعلقہ حکام کے پاس ڈیکلیئر ہے تو انہوں نے بتایا کہ جی وہ سال 2018 کے ٹیکس ایئر میں میری دولت کا حصہ تھی اور اس پر ٹیکس لاگو تھے۔

دوسری جانب رپورٹ کے مطابق ڈان کے سی ای او کے پاس بارڈنی لمیٹڈ نامی ایک آف شور کمپنی تھی جو سیچلز میں رجسٹرڈ ہے، دی نیوز کو دیے گئے ان کے باضابطہ جواب کے مطابق، کمپنی مناسب طریقے سے ڈیکلیئر تھی اور اس کے بارے میں قانون کے مطابق متعلقہ پاکستانی حکام کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

اسی طرح سلطان علی لاکھانی، ایک آف شور کمپنی سنچری میڈیا نیٹ ورک انک کے مالک ہیں، جسے فروری 2005 میں قائم کیا گیا تھا، سلطان لاکھانی محمد انور عبداللہ کے ساتھ کمپنی میں شیئرز کے مالک تھے۔

لاکھانی خاندان کے ترجمان نے دی نیوز کو بتایا کہ 'تمام کمپنیاں قانونی ہیں' اور قابل اطلاق قوانین کے مطابق ہیں۔

مزید پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز' کیا ہیں؟

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گورمے گروپ، جو ٹی وی چینل جی این این کا مالک ہے، بی وی آئی کے دائرہ اختیار میں ایک آف شور کمپنی گورمے ہولڈنگز لمیٹڈ کا بھی مالک ہے اور اس نے ایک ملازمہ آمنہ بٹ کو اس کا ڈائریکٹر مقرر کر رکھا تھا۔

تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ کمپنی پاکستانی ٹیکس حکام کے پاس ڈکلئیر ہے یا نہیں کیوں کہ آمنہ بٹ کو بھیجے گئے سوالنامے پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

معروف صحافی اور پاکستان ٹوڈے کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی بھی ان لوگوں میں تھے جن کے نام رپورٹ میں شامل ہیں، وہ بی وی آئی میں نیو مائل پروڈکشن لمیٹڈ کے مالک تھے جو جولائی 2000 میں ان کے اور ان کی اہلیہ کے بینیفشری ہونے کے ساتھ قائم کی گئی تھی۔

اس کمپنی کے ذریعے عارف نظامی اور ان کی اہلیہ دونوں نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سنگاپور کے ساتھ سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو رکھا، جس میں کیش اکاؤنٹس، بانڈز، ایکویٹی اور میوچوئل فنڈز شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ان اثاثوں کی اندازاً لاگت اس وقت 16 لاکھ ڈالر تھی لیکن یہ واضح نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس حکام کے سامنے کمپنی ڈیکلیئر کی گئی تھی یا نہیں۔

فوجی افسران کے اہلِ خانہ

دی نیوز کی رپورٹ میں مزید سابق فوجی رہنماؤں اور ان کے خاندان کے افراد کی نشاندہی کی گئی جن کا نام پینڈورا پیپرز میں شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول کے داماد احسن لطیف ایک آف شور کمپنی ڈیلن کیپیٹل لمیٹڈ کے مالک ہیں جو بی وی آئی دائرہ اختیار میں رجسٹرڈ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': حکومتوں، ریاستوں کے سربراہان آف شور اثاثوں کے مالک نکلے

دستاویزات کے مطابق کمپنی کو 'برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں کچھ جائیدادوں میں سرمایہ کاری کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن اسے روس کی ویکس آئل کمپنی لمیٹڈ سے ایل پی جی (مائع پیٹرولیم گیس) درآمد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا احسن لطیف نے یہ اثاثے پاکستانی ٹیکس حکام کے پاس ظاہر کیے ہیں کیوں کہ ان کی جانب سے کسی سوال کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پینڈورا پیپرز سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر کے بیٹے محمد حسن مظفر بی وی آئی میں رجسٹرڈ کریک گروتھ کیپٹل ہولڈنگ لمیٹڈ میں شیئرز کے مالک تھے۔

دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ آف شور کمپنی ساؤتھ ایسٹ ہیلتھ کیئر ہولڈنگ کی مالک ہے جو دبئی میں قائم ایک میڈیکل سینٹر کو چلاتی تھی جو بظاہر اب بند ہوچکا ہے۔

حسن مظفر نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ اس سرمایہ کاری کا ان کے والد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات میں کمائے گئے صرف اور صرف ان کی اپنے پیسے سے کی گئی اور ان کے متحدہ عرب امارات کے بینک اکاؤنٹ سے آئی، اس میں ان کے والد سمیت اہلِ خانہ کا کوئی اور فرد شامل نہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) تنویر طاہر کی اہلیہ زہرہ تنویر کی بھی بی وی آئی کے دائرہ کار میں ایک آف شور کمپنی اینر پلاسٹک لمیٹڈ کی مالک کے طور پر نشاندہی کی گئی۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں شامل 300 بھارتیوں میں سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی بھی شامل

رپورٹ میں کہا گیا کہ پینڈورا پیپرز سے پتا چلتا ہے کہ مسز زہرا تنویر کمپنی بینیفشل مالکان میں سے ایک ہیں، لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق اینر پلاسٹک لمیٹڈ ایک ہولڈنگ کمپنی ہے، جو منافع اور حقیقی سرمایہ کاری کمپنی کے لیے فنڈز کا بنیادی ذریعہ ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دی نیوز کی جانب سے انہیں بھیجے گئے سوالنامے پر کوئی جواب نہیں ملا۔

کاروباری افراد اور اعلیٰ عہدیدار

پینڈورا پیپرز کے انکشافات کے مطابق پشاور زلمی فرنچائز کے مالک جاوید آفریدی تین آف شور کمپنیوں کے بھی مالک ہیں، جن میں اولڈ ٹریفورڈ پراپرٹیز لمیٹڈ، سٹن گیس ورکس پراپرٹیز لمیٹڈ اور گیس ورکس پراپرٹی لمیٹڈ شامل ہیں۔

اخبار کی مطابق انہوں نے کمپنیوں کی ملکیت کی تصدیق کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ان کو قائم کرنے کی وجہ 'کسی بھی ٹیکس چوری کے بجائے ٹیکس بچانے کا اچھا ارادہ' تھا۔

ان کے مطابق کمپنیاں تقریباً غیر فعال تھیں اور کسی بھی کمپنی کی جانب سے کوئی کاروبار یا سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت 'پینڈورا پیپرز' میں نامزد تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی، عمران خان

رپورٹ کے مطابق نیشنل بینک کے صدر عارف عثمانی نے مارچ 2018 میں بی وی آئی آف شور ٹیکس ہیونز میں ایک کمپنی، ساسا پارٹنرز انک قائم کی، پینڈورا پیپرز میں ان کے کمپنی کے بینیفشل مالک ہونے کا انکشاف سامنے آیا جہاں انہوں نے بینک ایبل اثاثے رکھے ہوئے تھے۔

دی نیوز کی جانب سے عارف عثمانی سے متعدد معاملات پر سوالات کیے گئے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ان کے تمام ٹیکس ریکارڈ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو فراہم کیے گئے ہیں اور ان کا ہر اثاثہ چاہے بین الاقوامی ہو یا مقامی وہ ایف بی آر میں جمع کروائے گئے ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا حصہ ہے۔

رپورٹ میں نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی کی بھی نشاندہی کی گئی، جنہوں نے اکتوبر 2011 میں بی وی آئی کے دائرہ اختیار میں ایک آف شور کمپنی ویریٹاس ایڈوائزری سروسز لمیٹڈ رجسٹرڈ کی تھی۔

عدنان آفریدی نے دی نیوز کو کمپنی کے مالک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ دسمبر 2017 میں بی وی آئی میں کمپنیوں کی رجسٹریشن کو غیر فعال ہونے کی وجہ سے ختم کردیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پینڈورا پیپرز میں بیوروکریٹس کے خاندان کے افراد میں ایف بی آر کے سابق چیئرمین اور سیکریٹری خزانہ سلمان صدیق کے بیٹے یاور سلمان بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔

مزید پڑھیں: اہم شخصیات کے مالی رازوں سے متعلق 'پینڈورا پیپرز' آج منظرِ عام پر آنے کا امکان

دستاویزات کے مطابق ان کے بیٹے نے ان کی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل شراکت دار نوین احمد انور کے ساتھ بی وی آئی میں کرس ٹیک ہولڈنگز لمیٹڈ کو رجسٹر کیا تھا۔

یاور سلمان نے دی نیوز کو بتایا کہ کریس ٹیک ہولڈنگز کو اس وقت غیر ملکی کاروبار شروع کرنے کے ارادے کے تحت قائم کیا گیا تھا لیکن بعض حالات کی وجہ سے نہ تو کسی ایکویٹی میں حصہ ڈالا گیا اور نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ کھولا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کبھی ایکویٹی نہیں دی گئی اور ادارے کی مالیت 'صفر' رہ گئی ہے، اس لیے ٹیکس حکام کے سامنے اسے ظاہر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024