تاجکستان، طالبان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے وزیراعظم کی تاجک صدر سے بات چیت
اسلام آباد: افغانستان کی طالبان حکومت اور تاجکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران وزیراعظم عمران خان نے معاملات کو حل کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی‘۔
یہ فون کال ایسے وقت میں کی گئی کہ جب طالبان حکام اور تاجک حکومت کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ ہوا اور رپورٹس سامنے آئیں کہ تاجک افواج نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں طاقت کے مظاہرے کے لیے پریڈ کا انعقاد کیا جبکہ طالبان نے شمال مشرقی پڑوس کی سرحد کی جانب ہزاروں جنگجو بھیجے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں جامع حکومت کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے، وزیر اعظم
تاجکستان نے طالبان حکومت کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور خاص طور پر پنج شیر صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی۔
تاجکستان میں ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے 18 ستمبر کو واپسی پر وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ طالبان کو ایک جامع حکومت بنانے کے لیے راضی کررہے ہیں جن میں تمام نسلی گروہوں کے افراد شامل ہوں۔
اس موقع پر انہوں نے خاص طور پر اس معاملے پر تاجک صدر امام علی کے ساتھ اپنی گفتگو کا حوالہ دیا۔
بعدازاں ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں، وزیراعظم
تاہم طالبان، تاجکستان کی ان پر تنقید اور ان کی حکومت کی تشکیل کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رواں ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں افغان نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی نے کہا تھا کہ ’ہم کسی ہمسایہ ملک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے‘۔
خیال رہے کہ تاجک آبادی افغانستان کا دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے جو افغانستان کی 27 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، اس گروہ کی اکثریت طالبان مخالف ہے جن میں سے بیشتر نے تاجکستان میں پناہ لے رکھی ہے.
دفتر وزیراعظم کے بیان میں واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ وزیراعظم نے دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی کی کمی کا مطالبہ کیا، البتہ یہ کہا گیا کہ وزیراعظم نے بات چیت کے دوران ’افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی فوری ضرورت اور افغانستان کو درکار فلاحی امداد کی فراہمی میں بین الاقوامی برادری کے کردار کو اجاگر کیا‘۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان جامع حکومت قائم نہ کر سکے تو افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی، وزیراعظم
بیان کے مطابق وزیراعظم نے اقتصادی بحران کو روکنے اور عام لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ اقتصادی رابطوں کی فوری اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
ساتھ ہی دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے اپنی کوششوں کو مزید مربوط بنانے کے لیے قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم عمران خان طالبان کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے رابطوں کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔