افغانستان میں 2 ہزار سے زائد صحت مراکز بند ہوچکے ہیں، ریڈ کراس
ریڈ کراس کے عہدیدار نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے اور جنگ زدہ ملک میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے 2 ہزار سے زائد ادارے بند ہو چکے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) نے خبردار کیا ہے کہ فنڈنگ کی شدید کمی نے افغانستان کے نظام صحت کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
آئی ایف آر سی کے ایشیا پیسفک کے ڈائریکٹر الیگزینڈر میتھیو نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 'لوگ مزید کچھ ہفتوں تک بغیر تنخواہ کے کام کرنے کے لیے رضامند ہو سکتے ہیں'۔
مزید پڑھیں: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی افغانستان آمد، طالبان قیادت سے ملاقات کریں گے
انہوں نے کہا کہ 'لیکن اگر ایک دفعہ ادویات مکمل طور پر ختم ہوگئیں اور اگر آپ اس روشنی کو دوبارہ بحال نہیں کرسکتے، اگر آپ کے پاس کلینک میں آنے والوں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو پھر وہ دروازے بند کردیں گے'۔
چار دہائیوں سے زائد عرصے کی جنگ سے تباہ حال افغان معیشت اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد پابندیوں اور غیر ملکی امداد بند ہونے کے بعد رکی ہوئی ہے۔
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خصوصاً این جی اوز کی جانب سے اندرونی فنڈنگز کی مدد سے چلایا جانے والا صحت کا شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔
الیگزینڈر میتھیو نے افغانستان کے چار روزہ دورے کے اختتام پر کہا کہ 'تقریباً 2 ہزار سے زائد صحت مراکز بند ہوچکے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں صرف ایک ہفتے کا طبی سامان اور سہولیات باقی ہیں، عالمی ادارہ صحت
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں 20 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز کام نہیں کر رہے یا اجرت کے بغیر کام کر رہے ہیں، جن میں 7 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ ملک بھر میں 20 فیصد سے بھی کم صحت کے ادارے مکمل طور پر فعال ہیں جن میں سے دو تہائی میں بنیادی ادویات کا فقدان ہے، اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں جس میں کورونا وائرس کے خلاف ردعمل بھی شامل ہے۔
الیگزینڈر میتھیو کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں صرف ایک فیصد افراد کو کورونا ویکسین لگائی گئی ہے جبکہ 10 لاکھ سے زائد خوراکیں تقسیم ہونے کی منتظر ہیں جو اس سال کے آخر تک زائدالمیعاد ہوجائیں گی۔