• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بھارتی کسانوں نے مودی حکومت کے خلاف دوبارہ احتجاج کا آغاز کردیا

شائع September 27, 2021
رنگ برنگے جھنڈے لہراتے اور مفت کھانا تقسیم کرتے ہوئے سینکڑوں کسان نئی دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک احتجاجی مقام پر اکٹھے ہوئے۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
رنگ برنگے جھنڈے لہراتے اور مفت کھانا تقسیم کرتے ہوئے سینکڑوں کسان نئی دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک احتجاجی مقام پر اکٹھے ہوئے۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

ہزاروں بھارتی کسانوں نے مودی حکومت کے حمایت یافتہ قوانین کے خلاف مظاہروں کے ایک سال مکمل ہونے پر دوبارہ احتجاج کا آغاز کرتے ہوئے ملک کے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر اہم شاہراہوں اور ریلوے ٹریک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں بلاک کردیا۔

کسانوں نے قوانین کی منظوری، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی کمائی پر حملہ ہے، کے ایک سال مکمل ہونے پر ملک گیر ہڑتال کی کال کے ساتھ اپنے احتجاج کی تجدید کی ہے۔

ان مظاہروں کے وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سب سے بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے جنہوں نے 2019 میں دوسری بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

رنگ برنگے جھنڈے لہراتے اور مفت کھانا تقسیم کرتے ہوئے سیکڑوں کسان بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک احتجاجی مقام پر اکٹھے ہوئے۔

مزید پڑھیں: بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟

45 سالہ کسان اور احتجاج کرنے والے منجیت سنگھ نے کہا کہ 'پہلے دن ہم میں جو جوش و خروش تھا، یہ اب بہت بڑھ گیا ہے'۔

مظاہرین نے تحریک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا، کچھ تو اپنے ساتھ ضروری سامان بھی لے آئے اور دن گزرتے ہی وہیں ڈیرے ڈال دیے۔

نئی دہلی کے جنوب مغربی اور مشرقی کناروں پر شاہراہوں پر ٹریفک کو روک دیا گیا اور دارالحکومت سے پڑوسی ریاستوں تک رسائی منقطع کردی۔

امن و امان برقرار رکھنے کے لیے شہر کے مضافات میں تین اہم احتجاجی مقامات پر پولیس تعینات کی گئی تھی۔

کسانوں کی یونینز کے اتحاد، جسے سمیکتا کسان مورچا یا متحدہ کسان محاذ کہا جاتا ہے، نے دکانوں، دفاتر ، فیکٹریوں اور دیگر اداروں سے یکجہتی کے لیے 10 گھنٹے کی ہڑتال کرتے ہوئے اپنے دروازے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم ہڑتال کی کالز پر بڑی حد تک رد عمل نہیں دیکھا گیا اور زیادہ تر کاروبار دارالحکومت میں معمول کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حکومت نے قانون سازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کو جدید بنانا ضروری ہے اور یہ قوانین نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کریں گے۔

تاہم کسانوں کا کہنا تھا کہ نیا قانون ضمانتی قیمتوں کو ختم کرکے ان کی کمائی کو تباہ کردے گا اور انہیں اپنی فصلیں کارپوریشنز کو سستی قیمتوں پر فروخت کرنے پر مجبور کرے گا۔

پڑوسی ریاستوں، پنجاب اور ہریانہ میں، جو زرعی پیداوار میں ملک کی دو سب سے بڑی ریاستیں ہیں، ہزاروں مظاہرین نے شاہراہوں کو بھی بلاک کیا جس سے کچھ علاقوں میں ٹریفک رک گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: اترپردیش میں لاکھوں کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف احتجاج

مشرقی ریاست بہار میں ٹرینوں کو روک دیا گیا کیونکہ کسان ریلوے ٹریک پر بیٹھ گئے تھے، مظاہرین سڑکوں پر بھی آئے، مودی حکومت کے خلاف نعرے لگائے، ٹائر جلائے اور پورے علاقے میں سڑکیں بلاک کیں۔

پولیس نے بتایا کہ 500 مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم مزید کہا کہ شٹ ڈاؤن پرامن رہا۔

جنوبی شہر بنگلور میں سیکڑوں لوگوں نے حکومت کے خلاف احتجاج کی حمایت میں مارچ کیا۔

مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ریاست کیرالا میں حکمران لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ نے مکمل شٹ ڈاؤن کی اپیل کی ہے۔

بھارت میں اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس پارٹی نے کسانوں کی حمایت کی ہے۔

کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ وہ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024