چین امریکا جنگ اور بنتے بگڑتے بین الاقوامی اتحاد
اس سال ہونے والا اقوامِ متحدہ کا جنرل اسمبلی اجلاس 20 سال کے دوران پہلا اجلاس تھا جب امریکا کسی جنگ میں مصروف نہیں تھا بلکہ افغان جنگ سے کچھ یوں نکلا کہ اس پر اعتماد اور اس کی ساکھ کو دھچکا لگا۔
جنرل اسمبلی اجلاس سفارتی دنیا کا سب سے بڑا سالانہ ایونٹ ہے جہاں دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت و حکومت اور اعلیٰ ترین سفارتی عہدیدار اپنے ملکوں کی ساکھ بہتر بنانے، پہلے سے قائم اتحادوں کو مضبوط بنانے اور نئے اتحاد کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغانستان سے رسوا کن انخلا کے بعد امریکی صدر نے ناختم ہونے والی جنگ کی پالیسی ترک کرکے مسلسل اور ان تھک سفارتکاری کا اعلان کیا تھا اور اس کا ثبوت جنرل اسمبلی اجلاس سے پہلے 3 ملکی دفاعی معاہدے آکس کا اعلان ہے۔ اس جنرل اسمبلی اجلاس اور اس کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں بھی نئے اتحاد ہی دلچسپی کا مرکز رہے۔
آکس کئی حوالوں سے اہم ہے اور سب سے بڑی اہمیت اس خطے کے حوالے سے ہے۔ جو لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ امریکا اس خطے سے نکل چکا ہے ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا، کیونکہ امریکا اگر نکلا تھا تو واپس آچکا ہے اور منصوبہ بندی اور تیاری کے ساتھ آیا ہے۔
افغانستان سے نکلنے کا مقصد چین پر توجہ دینا تھا اور آکس معاہدے سے اس پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ آکس کے اعلان کے ساتھ ہی 4 رکنی غیر رسمی اتحاد کواڈ کا بھی اجلاس بلایا گیا اور چین کے ساتھ پورے ایشیا کو پیغام دیا گیا کہ چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو محدود کرنے پر سنجیدگی سے کام شروع ہوگیا ہے۔
آکس اور کواڈ کی وجہ سے ایشیا میں پہلے سے موجود طاقت کا توازن تبدیل ہوگا، ایشیائی ملکوں کو چین اور امریکا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ بھی شروع ہوگی۔
ایشیا پر توجہ کی پالیسی نئی نہیں ہے بلکہ اس پالیسی کو سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے شروع کیا اور اوباما اور ٹرمپ اسے آگے بڑھاتے رہے لیکن بائیڈن نے آتے ہی اس پر کام تیز کردیا۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد وائٹ ہاؤس کے اوّلین مہمانوں میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہانِ حکومت تھے۔
بائیڈن نے مارچ میں کواڈ کا ورچوئل اجلاس بلایا تھا اور صرف 6 ماہ بعد ہی کواڈ کا بالمشافہ اجلاس اس جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گریٹ پاور کی کشمکش ایشیا میں تیز ہونے کو ہے۔ آکس دفاعی معاہدے میں جدید ترین ٹیکنالوجی، سائبر، دُور مار ہتھیار اور مصنوعی ذہانت کے نکات آنے والے دنوں کی نئی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
آکس معاہدے نے یورپ اور بالخصوص فرانس کو اس دردناک حقیقت سے روشناس کروا دیا ہے کہ امریکا کو اب نیٹو کی ضرورت نہیں رہی اور وہ طویل عرصے تک ساتھ دینے والے اتحادیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ دراصل امریکا نے وہی کیا جو قومیں کرتی ہیں۔ قوم کی تعریف کی جائے تو یہی ہے کہ عوام کا ایک گروہ جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہو۔ جی ہاں اپنے مفادات، دوسروں کے نہیں، اور یہی کچھ امریکا اور آسٹریلیا نے کیا جس پر فرانس کا ردِعمل فوری اور سخت تھا جبکہ یورپی یونین کے دارالحکومتوں میں بھی اس اچانک اور نئے اتحاد پر تشویش کی لہر ابھری۔
آکس معاہدے نے فرانس کو ٹرمپ کی یاد دلادی اور فرانس نے اپنے ردِعمل میں جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا تو ٹرمپ نے بھی ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹرمپ کے جانے سے امریکا کی سمت نہیں بدلی۔ اب لگتا ہے کہ فرانس ایک بار پھر نیٹو سے نکل جائے گا۔
یاد رہے کہ 1966ء میں ڈیگال نے فرانس کو نیٹو سے الگ کرلیا تھا اور نکولس سرکوزی نے 2009ء میں نیٹو کی رکنیت دوبارہ اختیار کی تھی۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ کے رویے سے اکتائے فرانسیسی صدر عمانویل ماکرون نے 2 سال پہلے نیٹو کو ’برین ڈیڈ‘ قرار دیا تھا۔ امریکا اور آسٹریلیا سے ناراضگی کے بعد فرانس کے لیے عالمی عزائم پورے کرنے کی نئی راہ تلاش کرنا بھی ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ روایتی سوچ تو یہی ہوگی کہ یورپی یونین کے ساتھ مل کر راستہ نکالا جائے لیکن نیٹو میں واپسی کے 30 سال بعد بھی فرانس کو سوائے امریکی عزائم میں ساتھ دینے کے کیا ملا؟
اب فرانس اور پورے یورپ کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ نئے اتحاد بنائے جائیں۔ فرانس کے پاس پہلا آپشن یہ ہے کہ وہ جرمنی کو ایک بڑی طاقت کا رویہ اپنانے پر قائل کرے اور اسے نئے اتحاد کا قائد مان لے۔ برطانیہ کے ساتھ اتحاد کا راستہ کھلا رکھے، اگرچہ لندن اور پیرس کے تعلقات کئی برسوں سے نچلی ترین سطح پر ہیں لیکن مشکل ترین حالات میں سفارتکاری اور نئے اتحاد کے لیے کچھ قربانی دینا پڑتی ہے۔ یورپی یونین سے باہر فرانس کا اتحادی صرف برطانیہ ہی ہے اور فرانسیسی صدر کو یہ کڑوا سچ حلق سے اتارنا پڑے گا۔
روایتی مغربی اتحاد میں دراڑ نے یورپ سے باہر بڑی طاقتوں کے لیے امکانات کے نئے در وا کیے ہیں اور سمجھ دار لیڈروں نے اس موقع کو ہاتھ سے پھسلنے نہیں دیا۔ مثال کے طور پر مودی نے آکس کی تشکیل کے اعلان کے فوری بعد فرانسیسی صدر کو فون کیا اور انڈوپیسیفک میں قابلِ اعتماد اتحادی ہونے کا یقین دلایا۔ دیکھا جائے تو بھارت کو آکس بننے سے فائدہ ہی ہے کیونکہ آکس کی توجہ کا مرکز بھارت کا سب سے اہم حریف چین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آکس چین کی بحری قوت کا مؤثر توڑ بن سکتا ہے اور بھارت کو اس کا براہِ راست فائدہ ہوگا۔ اس کے باوجود مودی نے ماکرون کو فون کیا جس سے لگتا ہے کہ بھارت ان حالات میں کئی مغربی ملکوں اور طاقتوں کے درمیان پل بننے کی تیاری کر رہا ہے۔
چین کا بڑی طاقت بن کر ابھرنا واشنگٹن کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ آکس اور کواڈ دونوں ہی انڈوپیسفک میں چین کو روکنے سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی کا حصہ ہیں اور ان حالات میں امریکا بھارت کو اپنے لیے ناگزیر تصور کرتا ہے۔ آنے والے کئی عشروں میں انڈوپیسیفک خطہ اور بھارت امریکا کی پالیسی کا اہم ترین حصہ بننے کو ہیں۔
کواڈ اب تک باقاعدہ اتحاد کی صورت اختیار نہیں کرسکا تو اس کی وجہ بھارت کی ’غیر وابستگی‘ کی پالیسی ہے۔ چین کی طرف سے بھارت پر حالیہ فوجی اور اقتصادی دباؤ بھارت کو یہ پالیسی بدلنے پر مجبور کرچکا ہے۔ اگرچہ تبدیلی کی یہ رفتار سست ہے لیکن واشنگٹن کے لیے خوش آئند ہے۔
بھارت کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے خارجہ پالیسی کی جو سمت تشکیل دی تھی اس میں مغرب کو ایک خطرہ تصور کیا گیا تھا جبکہ چین کے ساتھ معاملات پُرامن طریقے سے حل کرنے کی سوچ اپنائی گئی تھی تاہم اب بھارت یہ تصور کرتا ہے کہ چین ایشیا اور اس کے سمندروں پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نئے خطرے کے پیش نظر بھارت کی خارجہ پالیسی میں بنیادی اور بڑی تبدیلی آچکی ہے۔
آکس معاہدے کے ساتھ امریکا انڈوپیسیفک میں نئے فوجی اڈے بھی بنا سکتا ہے۔ آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں دینے کا معاہدہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ اگر امریکا بی21 طیارے بھی دینے کا فیصلہ کرلے تو آسٹریلیا میں امریکی اڈے بھی وجود میں آجائیں گے۔ یوں انڈوپیسیفک میں آسٹریلیا امریکا کے لیے فارورڈ بیس کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ آسٹریلیا جوہری طاقت نہ ہونے کے باوجود یہ آبدوزیں لے رہا ہے اور یہ این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کی کھلی خلاف ورزی ہے لیکن اس پر اب کوئی معترض نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد آسٹریلیا بھی ایک جوہری طاقت بن کر سامنے آجائے۔
اس سے پہلے میں نے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی بات کی تھی، اور جنوبی کوریا بھی روایتی آبدوزوں پر انحصار ختم کرکے جوہری آبدوزوں کی طرف جاسکتا ہے۔ جاپان کی جوہری صلاحیتوں کی مخالفت ابھی تک اسے اس سے گریز پر مجبور کیے ہوئے ہے لیکن ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ بھارت ایک جوہری آبدوز کی ملکیت کا دعویدار ہے، وہ اس دوڑ میں ضرور کودے گا اور اس کے لیے فرانس سے رجوع کرسکتا ہے۔
بائیڈن نے مسلسل جنگوں سے نکل کر مسلسل سفارتکاری کا اعلان کیا ہے لیکن یہ سفارتکاری بھی مستقبل کی جنگ کے لیے ہے۔ چین کو روکنے کے لیے ہانگ کانگ اور تائیوان مغرب کی پالیسی میں اہم ہیں۔ ہانگ کانگ پر چین نے گرفت مضبوط کرلی ہے اور تائیوان کے حوالے سے بار بار تنبیہ کر رہا ہے اور تائیوان کے ڈیفنس زون کے اندر چین کے جنگی طیاروں کی پروازیں بھی بڑھ چکی ہیں۔
تائیوان پر جنگ کی پیشگوئی کئی عشروں سے کی جا رہی ہے لیکن افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد چین نے یہ تاثر دیا ہے کہ امریکا اتحادیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ نکلتا ہے اور اس کے آسرے اور سہارے پر کھڑی کی گئی فوج چند گھنٹوں میں ڈھیر ہوسکتی ہے۔
چین کے میڈیا میں یہ تبصرے تائیوان کے لیے ایک وارننگ تھے۔ چین تائیوان کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیتا ہے اور اسے ہر صورت چین کا حصہ بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ تائیوان نے دفاع کے لیے امریکا کی طرف دیکھنا شروع کر رکھا ہے لیکن سوال یہی تھا کہ امریکا تائیوان پر حملے کی صورت میں کس طرح کی مداخلت کرے گا، اور آکس کی تشکیل نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا ہے۔
چین خطے میں امریکی عزائم اور اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے تیاری طویل عرصے سے کر رہا ہے۔ چین نے بحری قوت میں اضافہ کیا ہے اور بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزائر بنا کر اپنی سمندری حدود کو وسعت دے رہا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی حوالوں سے بھی چین نے امریکا کے زیرِ اثر اداروں اور تنظیموں میں کام کرنے کے بجائے علاقائی تنظیمیں اور ادارے بنا رکھے ہیں جبکہ اقتصادی اثر و رسوخ کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اس کی بڑی مثال ہے۔
امریکا میں ٹرمپ کی صدارت، 2016ء میں بریگزٹ سمیت کئی اہم واقعات اور ٹیکنالوجی نے عالمی نظام کو کمزور کیا ہے اور چین خود کو عسکری، معاشی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئے لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
ان حالات میں واشنگٹن میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بیجنگ اب اسے برتر قوت تسلیم نہیں کرتا اور خطے میں مقاصد کے حصول کے لیے امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ مارچ میں امریکا کی انڈوپیسفک کمان کے سربراہ ایڈمرل فلپ ڈیوڈسن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ چین تائیوان سے متعلق اپنے عزائم اسی عشرے میں پورے کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، درحقیقت اگلے 6 سال کے دوران وہ تائیوان پر چڑھائی کرسکتا ہے۔ چین جو امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے 2050ء کی ڈیڈلائن مقرر کیے ہوئے تھا اب اسے مزید کم کرچکا ہے۔
آکس کی پیدائش اور کواڈ کو رسمی اتحاد میں تبدیل کرنے کی خواہش اور کوششیں خطے میں نئی کشمکش کو جنم دے چکی ہیں اور یورپی یونین نے بھی انڈوپیسیفک کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن آکس کی وجہ سے یورپی یونین کی پالیسی ملکی میڈیا میں زیادہ جگہ نہیں بنا سکی۔
یورپی یونین کی انڈوپیسیفک پالیسی میں سب سے نمایاں نکتہ چین ہی ہے۔ تاہم واشنگٹن کی سوچ کے برعکس یورپی یونین کی اس پالیسی کے مطابق اگر چین مسئلہ ہے تو مسئلے کے حل کا حصہ بھی ہے۔ یورپی یونین کی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ باہمی دلچسپی کے موضوعات پر چین سے بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی میں چین کا نام لے کر اسے مطعون کرنے کے بجائے مسائل کا ذکر کیا گیا جیسے کہ جیوپولیٹیکل مسابقت، سپلائی چینز پر کشیدگی، ٹیکنالوجی اور سائبر مسائل۔
انڈوپیسیفک پر دو بڑے اتحادوں کی پالیسی سامنے آنے سے خطے کے مستقبل کی کشمکش کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں اب طاقت کا مرکز ایک نہیں رہا اور طاقت کا توازن بھی بدل رہا ہے جس کے ساتھ خطے کے ملکوں کو اہم فیصلے جلد کرنا ہوں گے۔
تبصرے (2) بند ہیں