صومالیہ: موغادیشو میں صدارتی محل کے قریب خود کش حملے میں 8 افراد ہلاک
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں خودکش کار بم حملے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی افریقہ کے شدت پسند گروپ الشباب نے صدارتی محل کے قریب ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
مزید پڑھیں: صومالی دارالحکومت میں الشباب کے دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد ہلاک
ڈسٹرکٹ پولیس چیف مکاوی احمد مودی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کار بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر عام شہری تھے جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ گاڑی کے ڈرائیور نے دھماکا خیز مواد کو اس وقت دھماکے سے اڑا دیا جب پولیس نے اسے ایک چوکی پر روکا، دھماکا صومالیہ کے صدارتی محل سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہوا۔
ایک عینی شاہدین محمد حسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ اہلکار عام طور پر چیک پوائنٹ سے گزرنے سے پہلے گاڑیوں کو چیک کرنے کے لیے روکتے ہیں، اس گاڑی کو سیکیورٹی گارڈز نے روکا اور اس میں دھماکا ہو گیا، اس موقع پر وہاں کئی دوسری کاریں اور لوگ سڑک سے گزر رہے تھے، میں نے وہاں پر زخمی اور مردہ لوگوں کو دیکھا۔
جس چوکی پر حملہ ہوا اسے صدر اور وزیراعظم دارالحکومت موغادیشو کے ہوائی اڈے پر آنے اور جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صومالیہ کے دارالحکومت میں کار بم دھماکا، 3 افراد ہلاک
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون ہیباق ابوکر بھی شامل ہیں جو وزیر اعظم محمد روبل کے مشیر برائے خواتین اور انسانی حقوق ہیں۔
روبل نے کہا کہ ہمیں ان بے رحم دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں تعاون کرنا ہوگا جو باقاعدگی سے ہمارے لوگوں کو مارتے ہیں، انہوں نے ہیباق ابوکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایماندار اور محنتی لڑکی کے ساتھ ساتھ مخلص شہری بھی قرار دیا۔
القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروپ الشباب نے موغادیشو پر 2011 تک حکومت کی لیکن اسی سال افریقی یونین کے فوجیوں نے انہیں شہر سے نکال دیا تھا۔
اس کے بعد سے ایک دہائی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ آس پاس کے دیہی علاقوں پر قابض ہیں جہاں سے سرکاری اور شہری املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا نے 5 عسکریت پسندوں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا
ہفتہ کا حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا جب ملک کے صدر محمد عبداللہ محمد اور وزیر اعظم روبل کے درمیان سیکیورٹی اسٹاف کی بھرتی اور برطرفی پر تناؤ کا ماحول ہے اور ای وجہ سے 10 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔
صومالیہ 1991 میں ڈکٹیٹر محمد سیا برے کے زوال کے بعد سے تنازعات کی حالت میں ہے، ان کے بعد ملک کو ایک فعال حکومت کے بغیر چھوڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک طاقت کا خلا پیدا ہو گیا جس کو جنگجوؤں اور الشباب جیسی شدت پسند تنظیموں نے پُر کیا۔