پاکستان، چین سمیت تمام ممالک طالبان پر دباؤ ڈالنے کیلئے متحد ہیں، انٹونی بلنکن
امریکا کے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان، چین اور روس کے ساتھ گفتگو کے بعد ان کا ماننا ہے کہ دنیا، طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحد ہے۔
انٹونی بلنکن نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے سائیڈلائن ملاقات کی تھی جبکہ بدھ کو چین اور روس سمیت سلامتی کونسل کے چار ویٹو طاقت رکھنے والے ممالک کے وزرا سے بھی بات چیت کی تھی۔
انٹونی بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ 'میرا خیال ہے کہ یہاں مقصد اور نقطہ نظر کا بہت مضبوط اتحاد ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'طالبان کہتے ہیں کہ وہ قانونی حیثیت اور عالمی برادری کی حمایت چاہتے ہیں لیکن عالمی برادری کے ساتھ ان کے تعلقات کی وضاحت ان کے اقدامات کے بعد ہوگی'۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی جلدی نہیں ہے، شاہ محمود قریشی
انٹونی بلنکن نے طالبان کے لیے امریکا کی افغان اور غیر ملکی شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے اور افغانستان کو دوبارہ انتہا پسند القاعدہ کی طرح کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے سے دینے کی ترجیحات کو دہرایا۔
محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ انٹونی بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ گفتگو میں سفارتی روابط کو مربوط کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
پاکستان نے طالبان کے ساتھ رابطہ کرنے اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم شاہ محمود قریشی کا رواں ہفتے کہنا تھا کہ پاکستان کو نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے، مغربی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم
شاہ محمود قریشی نے امریکی سیکریٹری خارجہ کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ 'ہمیں مشترکہ طور پر کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہے تاکہ امن و استحکام کا مشترکہ مقصد حاصل کیا جاسکے'۔
چین اور روس دونوں طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے آگے بڑھ چکے ہیں لیکن وہ بھی جلد ان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور انہیں مذہبی انتہا پسندی سے متعلق دیرینہ خدشات ہیں۔
طالبان نے گزشتہ ماہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان پر قبضہ کیا، جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ دو دہائیوں سے جاری امریکا کی طویل جنگ کو مزید وسیع کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔