عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کی کابل میں طالبان سے ملاقات
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے 15 سے 17 سال کے افراد کو ویکسین لگانے کے اعلان کے بعد نوجوانوں کی جانب سے بہت سست ردِعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب بڑی تعداد میں بالغان بھی ویکسین کی دوسری خوراک لگوانے سے گریزاں ہیں اور ماہرین نے ان کے سست ردعمل کے پیچھے حکومت کی غفلت کے بجائے رویوں کے مسائل قرار دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ڈھائی کروڑ سے بھی کم افراد ایسے ہیں جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہیں، ان میں وہ سمندر پار پاکستانی بھی شامل ہیں جنہوں نے یہاں رجسٹرڈ ہونے سے قبل بیرونِ ملک ویکسین لگوائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایک مرتبہ پھر اتوار کا روز ویکسین کی دوسری خوراک لگوانے والوں کیلئے مخصوص
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق ساڑھے 5 کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہوں نے اب تک ویکسین کی صرف ایک خوراک حاصل کی ہے جبکہ این سی او سی نے اتوار کے روز دوسری خوراک لگوانے والوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔
ایک مائیکرو بائیولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان کا خیال ہے کہ سست ردعمل عوام کے عمومی رویے کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اور تقریبات میں شرکت کے اہل بننے کے لیے خود کو ویکسین لگاتے ہیں، جس سے واضح ہے کہ لوگ ابھی تک نہیں سمجھ پائے تھے کہ ویکسین ان کے تحفظ کے لیے ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب چونکہ این سی او سی صرف مکمل طور پر ویکسینیٹڈ افراد کے لیے سہولیات کی اجازت دے کر شکنجہ سخت کر رہا ہے، اس سے امید ہے کہ مزید لوگ دوسری خوراک لگوائیں گے۔
ڈاکٹر جاوید عثمان نے کہا کہ فی الحال تقریباً 10 لاکھ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر ویکسین دی جا رہی ہے، ان میں سے 6 لاکھ کو پہلی خوراک اور 4 لاکھ اپنی دوسری خوراک لگواتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کی طالبان سے ملاقات
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک بیان کے مطابق ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے کابل میں طالبان قیادت کے سینئر ارکان، اقوام متحدہ کے شراکت داروں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور مریضوں سے ملاقات کی۔
عالمی ادارہ صحت نے دیکھا کہ افغانستان کا نظام صحت تباہی کے کنارے پر ہے اور اگر فوری طور پر کارروائی نہیں کی گئی تو ملک کو ایک انسانیت سوز تباہی کا سامنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں بحران کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور
بیان میں کہا گیا کہ ہمارے دورے نے ہمیں خود افغان عوام کی فوری ضروریات کا مشاہدہ کرنے اور اسٹیک ہولڈرز سے ملنے کا موقع فراہم کیا تاکہ ہمارے صحت کے ردعمل کو فوری طور پر بڑھایا جاسکے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم اختلافات کو دور کرنے اور حل تلاش کرنے کے لیے تعمیری بات چیت میں مصروف ہیں جو ہمیں کئی دہائیوں کے تنازعات سے متاثر ہونے والے لاکھوں بے گناہ افغانوں کے لیے اپنا جان بچانے کا کام جاری رکھنے کی اجازت دے گی۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ اپنے پورے دورے کے دوران ہم نے طویل مدتی ترقیاتی اہداف کے حصول میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر اور بہت سے ترجیحی صحت کے مسائل پر توجہ مرکوز کی جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
طبی سامان کی فراہمی متاثر
افغانستان کے سب سے بڑے طبی منصوبے 'صحت مندی' کے لیے عطیات دہندگان کی امداد میں کمی سے ہزاروں طبی مراکز طبی سامان اور عملے کی تنخواہوں کے لیے فنڈز سے محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی افغانستان آمد
عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ ان میں سے بہت سے طبی مراکز نے اپنا آپریشن محدود یا بند کردیا ہے جس سے صحت کی سہولت فراہم کرنے والے ایسے سخت فیصلوں پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کسے بچایا جائے اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'صحت مندی' کے تحت چلنے والے صرف 17 فیصد طبی مراکز اس وقت فعال ہیں۔
طبی سہولیات کی فراہمی میں اس تعطل نے نہ صرف صحت کی بنیادی اور ضروری دیکھ بھال پر اثر ڈالا ہے بلکہ پولیو کے خاتمے اور کورونا ویکسی نیشن جیسی ہنگامی ضروریات کو بھی متاثر کیا۔