جولائی 2018 سے اب تک بجلی کے نرخ میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا
پاور ڈویژن نے تسلیم کیا ہے کہ جولائی 2018 سے بجلی کے نرخوں میں 40 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے لیکن بنیادی طور پر سبسڈی کی ناکافی ادائیگیوں کی وجہ سے گردشی قرضہ تقریباً پھر بھی دگنا ہوگیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے سوالات کا جوب دیتے ہوئے پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری وسیم مختار نے کہا کہ بجلی کے بنیادی نرخ 2018 میں 11 روپے 72 پیسے تھے جو اب 4 روپے 72 پیسے کے اضافے کے بعد 16 روپے 44 پیسے ہو چکے ہیں۔
ایک اور ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر مصدق احمد خان نے بھی تصدیق کی کہ جزوی اوور بلنگ کے کچھ واقعات درحقیقت کچھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں عید اور عاشورہ کی چھٹیوں پر میٹر ریڈنگ کی تاریخ بڑھانے کی وجہ سے پیش آئے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ اس قسم کے فعل کا دفاع نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے نرخوں میں 2 برس میں فی یونٹ 5.36 روپے کا اضافہ متوقع
اوور بلنگ کا معاملہ کراچی سے آغا رفیع اللہ نے اٹھایا، انہوں نے کہا کہ شہر میں کے-الیکٹرک نے صارفین سے تاخیر سے میٹر ریڈنگ کے ذریعے زیادہ چارج کیا، جس کے نتیجے میں مہینے کے 30 یا 31 دن سے زیادہ گزر گئے۔
کچھ دوسرے اراکین نے بھی سرکاری ڈسکوز میں اسی طرح کے طریقوں کے بارے میں بات کی اور کہا کہ یہ سنگین تشویش کا معاملہ ہے اور اس کی گہرائی سے تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ادھر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے وائس چیئرمین رفیق احمد شیخ نے کمیٹی کو بتایا کہ ریگولیٹر نے کے ای اور دیگر ڈسکوز کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن ریگولیٹر کو صارفین کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر مصدق احمد خان نے کہا کہ ایک تفصیلی رپورٹ موصول ہوچکی ہے اور وہ اس بات کی تصدیق کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے کہ تعطیلات کے باعث محدود پیمانے پر زائد دنوں کی وجہ سے اوور ریڈنگ کے واقعات پیش آئے۔
مزید پڑھیں: بجلی کے نرخوں میں 1.95 روپے فی یونٹ کا اضافہ
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے 46 میٹر ریڈنگ بیچز ہیں جن میں سے 6 بیچز میں ریڈنگ روز کے بعد لی گئی۔
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ یہ نیپرا کی جانب سے غفلت ہے جو صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال کر ایک ’سفید ہاتھی‘ بن چکا ہے۔
ان کے ساتھ دیگر اراکین نے بھی مطالبہ کیا کہ یہ اوور بلنگ کا معاملہ ٹھیک ہونا چاہیے اور کم کمپنیوں یا ان کی نگرانی کے ذمہ داروں کی وجہ سے عام لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔
نیپرا کے نائب چیئرمین نے بتایا کہ ریگولیٹر کے تکنیکی مشیر نے تمام ڈسکوز کے ساتھ ساتھ کے الیکٹرک سے مکمل رپورٹ طلب کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ تکنیکی مشیر ان رپورٹس کی جانچ کررہے ہیں جس کی بنیاد پر نیپرا تمام ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے لیے کھلی عوامی سماعت کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں 2.97 روپے تک اضافے کی منظوری
قائمہ کمیٹی کو ایڈیشنل سیکریٹری وسیم مختار نے بتایا کہ فروری میں ریگولیٹر کی جانب سے متعین کردہ 3 روپے 34 پیسے فی یونٹ میں سے بجلی کے نرخ میں ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے بقیہ ایک روپے 39 پیسے فی یونٹ کا اضافہ صارفین پر منتقل نہیں کیا اور یہ ایک سیاسی فیصلہ بھی تھا کہ حکومت کب یہ بوجھ صارفین پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
قائمہ کمیٹی نے گردشی قرض کا معاملہ اٹھایا اور تشویش کا اظہار کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں باقاعدہ اضافے کے باوجود اس میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔
کمیٹی کو فراہم کردہ ایک رپورٹ میں وزارت توانائی نے کہا کہ رواں برس جولائی تک گردشی قرض 2 کھرب 32 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا، جس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے سبسڈی کی عدم ادائیگی تھی اور اس کی وجہ سے تقسیم کار کمپنیوں پر قرض جمع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں