انجینیئرنگ منصوبوں کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز کے قیام کی تجویز
پاکستان انجینیئرنگ کونسل (پی ای سی) نے انجینیئرنگ کے بڑے منصوبوں میں تنازعات کے حل کے لیے خصوصی ٹربیونلز اور عدالتیں قائم کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ عدالتی نظام میں 'حقیقی تبدیلیی' اور انصاف کی فوری فراہمی کو بنایا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انجینیئرنگ کونسل، ملک بھر کی مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے انجینیئرز اور رجسٹرڈ انجینیئرنگ فرمز کا ریگولیٹری ادارہ ہے، یہ نے یہ تجویز وزیر اعظم کو منظوری کے لیے بھیجی ہے۔
تجویز کے مطابق خصوصی کونسل کا ماننا ہے کہ خصوصی انجینیئرنگ ٹربیونلز اور عدالتوں کے نیٹ ورک سے انجینیئرنگ معاہدوں میں ڈیفالٹس کے الزامات کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) پاس موجود کیسز کی تعداد کم ہوجائے گی، جبکہ اس کے نتیجے میں کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کا خوف بھی بھی ختم ہوجائے گا۔
پی ای سی نے کہا کہ عام عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے، جہاں انجینیئرنگ معاہدوں سے متعلق تکنیکی کیسز کی تحقیقات اور سماعت ہوتی ہے، انجینیئرنگ اور تکنیکی معاملات سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مؤثر طیقے سے تحقیقات اور فیصلہ نہیں کر پاتے، نتیجتاً 'ناانصافی' اور کیسز کے فیصلوں میں تاخر ہوتی ہے اور کثیر الجہتی منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔
پی ای سی کی گورننگ باڈی کے رکن و آل کنسلٹنگ انجینیئرز آف پاکستان کے صدر انجینیئر محمد وسیم اصغر نے ڈان کو بتایا کہ 'ہم نے وزیر اعظم عمران خان اور کونسل کے نومنتخب چیئرمین کو، جو حکمراں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، خصوصی انجینیئرنگ ٹربیونلز اور عدالتیں قائم کرنے کی تجویز بھیجی ہے اور وفاقی کابینہ سے تجویز کی منظوری کا مطالبہ کرنے کے لیے جلد وزیر اعظم سے ملاقات بھی کریں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع
انہوں نے کہا کہ ایک بار یہ انجینیئرنگ ٹربیونلز اور عدالتیں قائم ہوگئے تو قومی ہائی وے اتھارٹی، واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)، پاکستان ریلویز ، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) اور دیگر ادراوں میں وائٹ کالر جرائم کے بڑے کیسز احتساب و دیگر عدالتوں سے ان میں منتقل کردیے جائیں گے۔
تاہم وسیم اصغر کا کہنا تھا کہ ایک بار خصوصی عدالتوں سے فیصلے ہوں گے تو اعلیٰ عالتوں میں اپیلوں کا بوجھ کم ہوگا کیونکہ قانونی چارہ جوئی کرنے والے فیصلوں سے مطمئن ہوں گے۔
پی ای سی کے چیئرمین نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے جیسی تحقیقاتی ایجنسیاں اور عام شہری عدالتیں میگا کرپشن کیسز کے تکنیکی پہلوؤں سے ناواقف ہوتی ہیں، اس لیے یہ ایجنسیاں اس طرحکے کیسز کے تکنیکی معاملات کے لیے بعض اوقات کنسلٹنس اور ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
انہوں نےکہا کہ تاہم جب خصوصی ٹربیونلز اور عدالتیں قائم ہوں گی تو فیصلے دینے والے افسران/ججز کی معاونت کے لیے تکنیکی ماہرین کا پینل ہوگا۔