کووڈ کے ہر 3 میں سے ایک مریض کو طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق
کووڈ 19 کو شکست دینے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو بیماری کی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں لانگ بیچ شہر میں کووڈ کے مریضوں میں لانگ کووڈ کا جائزہ لیا گیا تھا۔
لانگ کووڈ کی اصطلاح ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کو بیماری کو شکست دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کی تشخیص کے 2 ماہ بعد بھی ہر 3 میں سے ایک کووڈ مریض کو کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 40 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد، خواتین، پہلے سے کسی بیماری سے متاثر لوگوں میں لانگ کووڈ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں 366 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں 2020 میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔
تحقیق کے دوران 35 فیصد افراد نے ابتدائی مثبت ٹیسٹ کے 2 ماہ بعد بھی کم از کم ایک علامت کو رپورٹ کیا تھا۔
لانگ کووڈ کے 17 فیصد مریضوں نے تھکاوٹ، 13 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی اور 11 فیصد نے مسلز یا جوڑوں میں تکلیف کو رورٹ کیا۔
محققین نے بتایا کہ نتائج ماہرین کے لیے اہمیت رکھتے ہیں جن سے انہیں لانگ کووڈ کے خطرے سے دوچار افراد میں اس مسئلے کی روک تھام اور علاج کی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق میں شامل افراد کی تعداد محدود تھی اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے نہ صرف کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر بریک تھرو انفیکشن کے بعد لانگ کووڈ میں مبتلا ہونے کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج سی ڈی سی کے جریدے Morbidity and Mortality ویکلی رپورٹس میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل ستمبر 2021 کے آغاز میں برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو اگر بریک تھرو انفیکشن (ویکسنیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں لانگ کووڈ کا امکان 49 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یوکے زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈ ایپ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو 8 دسمبر 2020 سے 4 جولائی 2021 تک جمع کیا گیا۔
یہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12 لاکھ 40 ہزار 9 افراد نے ویکسین کی ایک خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9 لاکھ 71 ہزار 504 نے 2 خوراکیں استعمال کی تھیں۔
محققین نے مختلف عناصر بشمول عمر، جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے کووڈ کا شکارہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ویکسینیشن نہ کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49 فیصد کم ہوتا ہے۔