شاہکار فنِ تعمیر سے مزین صحرائے تھر
پاکستان کے صوبہ سندھ کے جنوب میں واقع صحرائے تھر کو قحط سالی، خراب موسم، بھوک و افلاس کی وجہ سے شہرت حاصل ہے لیکن وہ شاہکار فن تعمیر سے بھی بھرپور ہے اور اب حکام وہاں تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
صحرائے تھر کی ہی تنگ گلیوں اور لوگوں کی بھیڑ سے بھرے شہر عمر یا امر کوٹ میں ایک تاریخی قلعہ بھی ہے، جسے برصغیر پر کئی سال تک حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں سے جوڑا جاتا ہے۔
عمر کوٹ یا امر کوٹ میں موجود تاریخی قلعے کے دروازے سے تھوڑی دوری پر بازار واقع ہے، جہاں پر دکاندار خریداروں کو بلانے کے لیے ہر وقت آوازیں لگاتے رہتے ہیں۔
قلعے کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی آٹو رکشے لائن سے کھڑے رہتے ہیں جو اسے مستقل اور غیر قانونی اڈے کے طور پر منتقل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ترک خبر رساں ادارے انادولو میں شائع ہونے والی اسٹوری کے مطابق عمر یا امر کوٹ شہر بھارت کی سرحد سے 60 کلو میٹر پر واقع ہے اور وہاں موجود تاریخی قلعے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں مغل خاندان کے تیسرے بادشاہ اکبر کی جائے پیدائش ہے۔
مورخین کے مطابق اکبر بادشاہ 1542 میں عمر یا امر کوٹ میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب ان کے والد کو افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست ہوئی تھی۔
تاہم بعض مورخین کے مطابق اکبر بادشاہ مذکورہ قلعے میں نہیں بلکہ اس سے تین کلو میٹر کی دوری پر ایک گھنے جنگل میں پیدا ہوئے تھے، جہاں بعد میں ایک یادگار بھی بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے بادشاہ سے شکست کے بعد ہمایوں بادشاہ کو ایران جاتے ہوئے عمرکوٹ کے راجپوت حکمران رانا پرشود سوڈھا نے پناہ دی تھی، یہیں پر ہی اکبر بادشاہ کی پیدائش ہوئی اور یہیں ہمایوں نے دوبارہ طاقت حاصل کرکے اکبر کی پیدائش کے چار سال بعد شیر شاہ سوری کو شکست دی۔
یہ بھی پڑھیں: عمر کا سات صدیاں دیکھنے والا قلعہ
عمر کوٹ کے قلعے کی دیواریں 45 فٹ اونچی ہیں اور یہ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا ہے جو اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر سندھ حکومت نے 2016 سے اس کی بحالی پر کام شروع کر رکھا ہے۔
مذکورہ قلعے میں انگریز حکمرانوں نے سندھ پر قبضے کے بعد وہاں جیل اور ایک مہمان خانہ بھی بنایا تھا جو اب خستہ حالت میں موجود ہیں جب کہ قلعے کے اندر ایک میوزیم بھی ہے جو قدرے اچھی حالت میں ہے۔
قلعے میں موجود میوزیم میں تاریخی نودارات، پینٹنگز، مغل دور کے ہتھیار، انگریز دور کی نشانیاں، ثقافتی چیزیں اور دیگر نایاب اشیا رکھی ہوئی ہیں۔
اسی میوزیم میں ’عمر ماروی‘ کے مجسمے بھی نصب ہیں، جن کے قصے کو سندھ یا سندھی زبان میں لوک کہانی سمیت ہمت، بہادری و جرات کی کہانی کے طور پر صدیوں سے یاد کیا جاتا آ رہا ہے۔
عمر ماروی کی داستان
عمرکوٹ قلعے کے میوزیم کا ایک حصہ تھر کی بہادر لڑکی ’ماروی‘ اور اسے قید کرنے والے بادشاہ ’عمر‘ کے نام کیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عمر سومرو خاندان کے طاقتور بادشاہ تھے، جنہوں نے تھر کی خوبصورت دوشیزہ ’ماروی‘ کو ان کے حسن کی وجہ سے محل میں قید کرکے ان پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا تھا لیکن لڑکی نے بادشاہ کی ایک نہ مانی اور اپنی بہادری سے اپنی عزت کی جنگ جیتی۔
قلعے کے میوزیم میں ماروی، عمر اور اس کے ایک نوکر کے بڑے مجسمے نصب ہیں جنہیں دیکھتے ہی ان کی لوک کہانی یاد آجاتی ہے۔
تاریخی حوالے سے بھی عمر کوٹ کے حوالے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی جانب سے الگ الگ دعوے کیے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے مطابق قلعے کو 11 ویں صدی میں مسلمان حکمران عمر سومرو نے تعمیر کروایا تھا جب کہ ہندوؤں کے مطابق اسے 13 ویں صدی میں اقتدار میں آنے والے مہاراجا امر سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔
مزید پڑھیں: نوکوٹ: صرف وقت سے شکست کھانے والا قلعہ
بعض مورخین کے مطابق عمر سومرو بادشاہ نے اسی قلعے میں تھر کی دوشیزہ ماروی کو قید کیا تھا۔
ماروی کی جرات مندی اور بہادری کی وجہ سے ہی سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی ان کی کہانی اپنی شاعری میں پیش کی ہے۔
شاھ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں ’سر مارئی‘ کے نام خصوصی باب لکھا ہے، جس میں انہوں نے وطن سے محبت، عزت اور جرات مند لڑکی کی کہانی کو متاثر کن الفاظ میں پیش کیا ہے۔
دیوتا شیو کا مندر
صحرائے تھر کا علاقہ عمر کوٹ صرف قلعے کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر کئی چیزوں کے حوالے سے بھی منفرد اہمیت رکھتا ہے اور ایسی ہی چیزوں میں یہاں موجود تاریخی ’شیو یا شیوا‘ دیوتا کا مندر بھی ہے۔
’شیو یا شیوا‘ دیوتا کا مندر عمر کوٹ شہر سے 3 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے جہاں صوبے بھر سے ہندو افراد عبادت کے لیے آتے ہیں اور مذکورہ مندر کو اہمیت حاصل ہے۔
مقامی ہندو چیتن بھگت نے ’انادولو‘ کو بتایا کہ مذکورہ مندر 5 ہزار سال پرانا ہے اور موجودہ مندر کی ساخت یا حدود کو ایک صدی قبل مسلمانوں نے بڑھایا۔
مندر کے اندر ’شیو لنگ‘ کی علامت رکھی گئی ہے اور وہاں ہر وقت امبر اور مشک کی خوشبو پھیلی رہتی ہے، مندر کے پیچھے بنے ایک حال میں ’درگا ماں‘ کا مجسمہ نصب ہے جو جرات اور بہادری کی علامت ہے۔
مذکورہ مندر میں ہر سال تین روزہ میلے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جس میں شرکت کے لیے سندھ بھر سے ہندو افراد شرکت کرتے ہیں اور میلے میں شرکت کے لیے آنے والوں کو راستے میں پڑنے والے مسلمانوں کے گاؤں کی رہائشی عقیدت و احترام سے انہیں کھانا اور مشروبات پیش کرتے ہیں۔
یادگارِ اکبری
عمر یا امر کوٹ شہر کے مشرق میں ایک زمین کے ٹکڑے پر ’یادگار اکبری‘ کے نام سے چھوٹی عمارت بھی بنی ہوئی ہے، جسے اکبر بادشاہ کی یاد میں بنایا گیا ہے، جنہوں نے برصغیر پر 49 برس تک حکومت کی۔
مذکورہ گنبد اب خستہ حالت میں ہے اور اس کے ارد گرد جھاڑیاں اور درخت ہیں، کہتے ہیں کبھی وہاں گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔
مذکورہ یادگار پر ایک تختی لٹکی ہوئی ہے، جس پر درج ہے کہ مغل بادشاہ اکبر یہیں پیدا ہوئے تھے۔
اسی حوالے سے معروف مصنف اور تاریخ نویس نور احمد جنجھی نے ’انادولو‘ کو بتایا کہ جس جگہ اب یادگار اکبری ہے، وہ جگہ کبھی عمر کوٹ کا حصہ ہوا کرتی تھی۔
انہوں مزید بتایا کہ مغل بادشاہوں اور عمر کوٹ کا آپس میں گہرا تعلق رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے، کیوں کہ یہی وہ شہر یا علاقہ تھا، جس نے ہمایوں کو بچایا تھا۔
ان کے مطابق عمر کوٹ نے ہی بادشاہ ہمایوں کو اپنی کھوئی ہوئی سلطنت پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کا اہل بنایا۔