’ایسا لگا جیسے ایک چھوٹا سا ڈی چوک پارلیمنٹ کے اندر بھی بن چکا ہے‘
ابھی الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کا شور تھما نہیں تھا کہ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کو تالے لگادیے گئے اور پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک کو خاردار تاروں سے بند کردیا گیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی صورتحال دیکھ کر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے کے دن یاد آگئے کہ جب نواز شریف کی حکومت کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں مشترکہ اجلاس جاری تھا۔ ان دنوں بھی ہاؤس کی عمارت کو خاردار تاروں سے محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور ایوانِ صدر کی وسیع کالونی کے راستے اجلاس میں شرکت کی جاتی تھی۔ ملک کے سیاسی نظام کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ ہاؤس کا حال ان دنوں کچھ ایسا ہی تھا۔
پارلیمنٹ گیٹ کے سامنے موجود سڑک کی ایک جانب سپریم کورٹ کے ذریعے برطرف کیے گئے سرکاری ملازم نعرے بازی کر رہے تھے جبکہ اس کے بالکل سامنے گرین بیلٹ پر پاکستان فیڈریشن یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کا 15 گھنٹوں سے دھرنا جاری تھا۔ پارلیمنٹ کی عمارت اور اس کے سامنے شاہراہِ دستور پر حکومت کے خلاف نعرے بازی جاری تھی۔
صرف یہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے داخلی گیٹ کے اندر بالکل لفٹ کے سامنے ریڈ کارپٹ پر پارلیمانی رپورٹرز دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ غیر ملکی سفرا، ارکانِ پارلیمنٹ، صوبائی وزرائے اعلی، گورنرز، آئینی اداروں کے سربراہان اور ممتاز شہری لفٹ کی طرف جاتے تو پہلے ان کو دھرنے پر بیٹھے صحافی بتاتے کہ اب تو پریس گیلری بند کردی گئی ہے جس پر ساتھی شیم شیم کے نعرے لگاتے۔ بہت سے مہمانوں کے لیے یہ حیران کن منظر تھا۔
گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور اپنے عملے کے ہمراہ جب وہاں سے گزرے تو انہوں نے صحافیوں کی چلتے چلتے بات تو سنی لیکن چہرے پر چڑھے ماسک کے باوجود محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مسکراتے ہوئے لفٹ میں سوار ہوئے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والوں نے بھی گورنر پنجاب کی پیروی کی لیکن بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال کچھ دیر رُکے اور سنجیدگی سے بات سنی۔
اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والی پیپلزپارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان، روبینہ خالد اور نفیسہ شاہ صحافیوں کا دھرنا دیکھ کر وہیں رُک گئیں، استفسار پر انہیں بتایا گیا کہ اسپیکر نے صدر کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے موقعے پر پریس گیلری کو تالے لگوادیے ہیں۔ ان تمام خواتین ارکان پارلیمنٹ کے لیے یہ حیرانی کی بات تھی اور اظہارِ یکجہتی کے لیے وہیں بیٹھ گئیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک خاتون رکن دیگر خواتین کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے رکی تو تھیں لیکن جب ان کی ایک ساتھی نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ تو انہوں نے ’اوہ‘ کہہ کر لفٹ کی طرف جانے میں اپنی عافیت جانی۔ دراصل انہیں ڈر تھا کہ کہیں کوئی ان کی چغلی نہ ماردے۔
جب سینیٹر عرفان صدیقی آئے تو دھرنے کا حصہ بن گئے، انہوں نے بیٹھے بیٹھے تقریر بھی کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت آوازوں سے ڈرتی ہے، ان کی تقریر کے دوران ارکان کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلم لیگ (ن) اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) اور محسن داوڑ سمیت متعدد ارکان نے صحافیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر احسن اقبال، مولانا اسعد محمود، رانا ثنااللہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
مشترکہ اجلاس کے موقعے پر پارلیمان کی عمارت کا جس طرح ماحول بنایا جاتا ہے وہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا تھا، لگتا تھا کہ ایک چھوٹا سا ڈی چوک پارلیمنٹ کے اندر بھی بن چکا ہے، اور بھلا ایسا کیوں نہیں لگتا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کی پریس گیلری کو صحافیوں کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
'کیا جنرل ضیا الحق یا مشرف دور میں کبھی ایسا ہوا؟'، گزشتہ 36 برسوں سے پارلیمنٹ کور کرنے والے ایک سینیئر صحافی سے میں نے پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ 'نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا‘۔
لیکن پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کے صدر صدیق ساجد اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ جب بھٹو دور میں نوابزادہ نصراللہ اور ولی خان کو ایوان سے باہر پھینکوایا گیا تھا تب بھی پریس گیلری کو بند کردیا گیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایوانِ زیریں کے کسٹوڈین ہوتے ہیں، اور آئین پر عملدرآمد ان کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔ یہی ایوان وزیرِاعظم کا انتخاب کرتا ہے اور وزیرِاعظم کو چلتا کرنے کا اختیار بھی اسی ایوان کے پاس ہے۔
مگر اس بار پریس گیلری کو تالے لگواکر اسپیکر نے آئین کے برعکس کام کیا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلے بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پریس گیلریز کو بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن اس وقت کورونا کا بہانہ بنایا گیا تھا، تب بہزاد سلیمی، ایم بی سومرو ،علی شیر اور دیگر صاحبان پر مشتمل پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی قیادت نے نہ صرف اس فیصلے کی مخالفت کی بلکہ مؤقف اختیار کیا کہ پریس گیلری کو ایک بار اگر بند کردیا گیا تو یہ روایت مختلف بہانوں سے دہرائی جاتی رہے گی۔ اس بار اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ نے پی آر اے کی قیادت کو یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک روز قبل اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا تھا جس میں سرکاری حکام نے بھی شرکت کی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ صدر کے خطاب کے دوران صحافیوں کے درمیان واک آؤٹ کے وقت جھگڑا ہوسکتا ہے۔
پڑھیے: پارلیمانی تشدد کا آنکھوں دیکھا حال
ہم نے پہلے ہی اسپیکر کو یقین دلایا تھا کہ ہمارا واک آؤٹ 5 منٹ کا ہوگا اور اگر پی آر اے کے نان ممبرز پریس گیلری میں موجود ہوں گے تو انہیں واک آؤٹ پر مجبور نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود ہمیں اطلاع دیے بغیر پریس گیلری اور پریس لاؤنج کو تالے لگادیے گئے۔
پی آر اے کے صدر صدیق ساجد بتاتے ہیں کہ ہم چند دوستوں نے پریس لاؤنج پر تالے دیکھ کر جب قومی اسمبلی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنے فیصلے سے ہمیں آگاہ کیا۔ اس ساری صورتحال پر نہ چیئرمین سینیٹ اور نہ ہی اسپیکر کی جانب سے کوئی وضاحت دی گئی۔
کچھ روز قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے معاملے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں الیکشن کمیشن حکام اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سے وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی کی جھڑپ ہوچکی تھی۔ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر حکومت کے دلائل کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے جبکہ حکومت قانون منظور کروانے سے پہلے ہی یہ ذہن بناچکی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات انہی مشینوں کے ذریعے کروائے گی۔
ظاہر ہے ایسی صورتحال میں وفاقی وزیر اعظم سواتی کا میٹر گھومنا تو بنتا تھا۔ انہوں نے نہ صرف الیکشن کمیشن کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا بلکہ ملک میں جمہوریت کی بربادی کا ذمہ دار بھی الیکشن کمیشن کو ٹھہرایا، بقول ان کے 'ایسے انتخابی کمیشن کو تو آگ لگادینی چاہیے'۔
پارلیمان کو کور کرنے والے صحافیوں کا خیال تھا کہ سواتی صاحب غصے میں ہوں گے اسی لیے حد پار کر گئے اور جب غصہ ٹھنڈا ہوگا تو اپنے الفاظ واپس لے لیں گے۔ تاہم انہوں نے اس بار بھی صحافیوں کو غلط ثابت کیا۔ اسی روز شام کو انہوں نے بابر اعوان اور فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تو لگا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہی ہورہا ہے۔
پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے معاملے پر بھی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری وہی کچھ کر رہے تھے جو اعظم سواتی نے کیا۔ انہوں نے پی ایف یو جے کے اہم رہنما کو صحافی ماننے سے انکار کردیا اور اپنے بل کے حق میں ایسے صحافی کھڑے کردیے جن میں ایک دو کو چھوڑ کر باقیوں کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ شاہراہِ دستور پر جہاں پی ایف یو جے کا دھرنا تھا کچھ فاصلے پر اس بل کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف وہی صحافی اپنا کیمپ لگا کر بیٹھے تھے۔ پی ٹی وی کی ان پر خاص مہربانی تھی۔
لیکن کہانی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب صدر کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کا دن قریب آنے لگا۔ مشترکہ اجلاس تو 13 ستمبر صبح 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن 2 دن پہلے یعنی ہفتے کے روز اجلاس کا وقت تبدیل کرکے شام 4 بجے کردیا گیا۔
پڑھیے: نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے خلاف احتجاج: صحافیوں سے اپوزیشن رہنماؤں کا اظہار یکجہتی
صدرِ مملکت کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقعے پر ہمیشہ تمام مہمانوں اور صحافیوں کو خصوصی دعوت نامے جاری کیے جاتے ہیں جن کے ایک کونے پر سیریل نمبر درج ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی گاڑی کی پارکنگ کے لیے اسٹیکر بھی دیا جاتا ہے۔ یہ دعوت نامہ ایوانِ صدر کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔ تاہم صحافیوں کو دعوت نامے جاری کرنے کا حتمی کام پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کرتا ہے۔ لیکن اس بار یہ دعوت نامے کن صحافیوں کو دینے ہیں کن کو نہیں؟ یہ معاملہ وزیرِ اطلاعات کی مرضی کے بغیر آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔
پی ایم ڈی اے کے خلاف صحافیوں اور میڈیا مالکان کی مشترکہ جدوجہد چل ہی رہی تھی۔ دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جاچکا تھا کہ مشترکہ اجلاس سے ایک دن پہلے ملک بھر کے صحافی پی ایم ڈی اے کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شاہراہِ دستور پر جمع ہوں گے، رات وہیں گزاریں گے، روڈ شوز ہوں گے اور اگلے روز مشترکہ اجلاس کے بعد یہ دھرنا ختم کردیا جائے گا۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس احتجاج کی حمایت کی تھی اور تمام اپوزیشن رہنما اس احتجاج میں شریک بھی ہوئے۔ پی ایف یو جے کی جانب سے پی آر اے کو درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے اور مشترکہ اجلاس سے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا جائے۔
ہفتے کے روز ہی اندازہ ہوا کہ پارلیمان کو کور کرنے والے تمام صحافیوں کو مشترکہ اجلاس کے خصوصی پاسز جاری نہیں کیے جائیں گے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ 200 کے بجائے 100 صحافیوں کو پاسز جاری کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن ان میں سے بھی صرف 50 پاسز مستقل کور کرنے والے صحافیوں کو جاری کیے گئے جبکہ بقیہ پاسز اپنے من پسند صحافیوں کو دیے گئے۔ جب اس معاملے کی بھنک پی آر اے کو پڑی تو انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ کیا لیکن وہاں سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
پیر کے روز مشترکہ اجلاس سے 2 گھنٹے قبل پریس گیلری بند کردی گئی اور صحافیوں کو بتایا گیا کہ کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر ایونٹ کور کرلیں۔ صحافیوں کو یہ تجویز کسی صورت قابلِ قبول نہیں تھی اور اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر دھرنا شروع ہوگیا۔ جب مشترکہ اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو پارلیمانی صحافی گراؤنڈ فلور کے سامنے لفٹ والی جگہ سے اٹھ کر اسپیکر چیمبر کے باہر جمع ہوگئے اور وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے لیکن اسپیکر تو دُور اسمبلی کا کوئی افسر بھی صحافیوں کی بات سننے نہ آیا۔
تادمِ تحریر اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں آئی کہ انہوں نے پریس گیلری کو تالے کیوں لگوائے؟
مشترکہ اجلاس کے بعد مختلف لوگ مختلف باتیں کر رہے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ حکومت پریس گیلری میں صحافیوں اور اپنے من پسند صحافیوں کے درمیان جھگڑا کرواکر پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کو غیر مؤثر بنانا چاہتی تھی تاہم اسپیکر نے پریس گیلری کو تالے لگوا کر اس معاملے کو ٹال دیا ہے اور سارا الزام اپنے سر لے لیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اسپیکر نے اپنے آپ کو متنازع بناکر خود اپنی پوزیشن خراب کردی ہے، کل اگر حکومت دباؤ میں آکر پیچھے ہٹ جاتی ہے تو اسپیکر کی پوزیشن کیا ہوگی؟ اس سوال کا ان اہم لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
خیر یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ نئے پارلیمانی سال کی ابتدا کوئی اچھی نہیں ہوئی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ مشترکہ اجلاس کے آغاز سے اختتام تک، قومی اسمبلی کے ایوان میں لگے کیمرے اپوزیشن بینچز کی طرف نہیں گئے تاکہ دیکھنے والوں کو پتا نہ لگ سکے کہ کون کس طرح احتجاج کر رہا ہے۔ تمام تر توجہ کا مرکز سرکاری بینچز رہیں جبکہ اپوزیشن ارکان کے بائیکاٹ کو بمشکل چند سیکنڈ کے لیے دکھایا گیا۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ایوان کے اندر اپنے احتجاج کی ویڈیوز خود بناکر صحافیوں کو بھجوائیں۔ اس حوالے سے ایک رکنِ اسمبلی نے مجھے کہا، 'لگتا ہے اگلی بار ایوان کے اندر جانے سے پہلے ہم سے موبائل فونز بھی لے لیے جائیں گے'۔
آئینِ پاکستان کی ضامن قومی اسمبلی جو اسپیکر کے ماتحت اپنا نظام چلاتی ہے، اس نے جو کچھ کیا ہے اس کے چاہے ہزار جواز ہوں لیکن جمہوریت کے دائرے کو کسی صورت بالائے طاق نہیں رکھا جاسکتا اور جمہوریت کا دائرہ آئین کے اندر ہوتا ہے۔ اس سے کون انکار کرے گا کہ پارلیمان کو کور کرنے والے صحافی پارلیمان کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں، ان کو پارلیمان کا حصہ سمجھا اور مانا جاتا ہے۔
مگر 13 ستمبر کا یہ دن بھی پارلیمانی صحافت میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ جب ایک اسپیکر نے آئین میں دی ہوئی آزادی اظہار کی ضمانت کو اپنے حکم سے منسوخ کیا اور پریس گیلری کو تالے لگوائے۔ اسی پریس گیلری کو کور کرنے والے صحافیوں نے ملک میں جمہوریت کے لیے ہمیشہ اپنے حصے کا کردار ادا کیا اور کبھی بھی اسے مارکیٹ نہیں کیا اور نہ کبھی تمغوں کے مطالبے کیے لیکن اس بار وہ اپنا آئینی حق مانگ رہے تھے اور اس سے مانگ رہے تھے جس نے خود یہ حق غضب کیا تھا۔
میر بھی کیا سادہ ہیں، ہوئے بیمار جس کے لیے
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں