صدارتی خطاب کے دوران اسپیکر کے حکم پر پریس گیلری کو تالا لگایا گیا
اسلام آباد: غیر معمولی طور پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے صدر عارف علوی کے پارلیمان سے مشترکہ خطاب کے موقع پر پریس گیلری کو تالا لگانے کا حکم دیا جس کے بعد صحافیوں نے ان کے دفتر کے باہر احتجاج کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپیکر کی جانب سے یہ اقدام پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کی جانب سے صدارتی خطاب کے دوران واک آؤٹ کر کے پارلیمٹ کے باہر ساتھیوں کے احتجاج میں شرکت کی کال کے تناظر میں اٹھایا گیا۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے متنازع پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) قائم کرنے کے منصوبے کے خلاف فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی کال پر اتوار سے صحافی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے خلاف احتجاج: صحافیوں سے اپوزیشن رہنماؤں کا اظہار یکجہتی
جن صحافیوں کو اجلاس میں شرکت کے خصوصی دعوت نامے جاری کیے گئے تھے وہ جب کوریج کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کی تیسری منزل پر پہنچے تو پریس لاؤنج اور پریس گیلری میں تالا لگا ہوا دیکھ کر حیران رہ گئے۔
مشتعل صحافیوں نے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے پر دھرنا دیا اور پھر اسے اسپیکر آفس کے سامنے منتقل کردیا۔
چند سینئر رپورٹرز کے ساتھ صحافی صدر کی تقریر کے دوران وہاں موجود رہے اور اسپیکر کے اقدام کے خلاف نعرے لگاتے رہے اور اسے ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ قرار دیا۔
بعد میں وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کارکنان کے احتجاجی کیمپ میں شامل ہوگئے جہاں اپوزیشن رہنماؤں بشمول مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی دورہ کیا۔
مزید پڑھیں: نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے تحت چینلز پر 25 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا، فواد چوہدری
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں نے احتجاج کرنے والے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ حکومت کو پارلیمنٹ سے پی ایم ڈی اے کے قیام کا متنازع قانون منظور نہیں کرنے دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ایک وفد نے بھی وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کی قیادت میں صحافیوں کے کیمپ کا دورہ کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سید امین الحق نے کہا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ پی ایم ڈی اے بل صحافیوں کے مفاد میں ہے تو اسے پہلے میڈیا کارکنان سے مشاورت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے دکھایا ہے کہ جب میڈیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو اس کے حکومت کے خلاف سنگین نتائج برآمد ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافیوں، معروف ٹی وی اینکرز اور میڈیا ورکرز نے پی ایم ڈی اے قانون سازی کو بلڈوز کرنے اور میڈیا کی زبان بندی کے حکومتی اقدام کے خلاف مزاحمت کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
صحافیوں نے اسپیکر کی جانب سے صدر کے خطاب کی کوریج کے لیے صحافیوں کو پریس گیلری میں داخل ہونے سے روکنے کے اقدام کی بھی مذمت کی۔
پی ایف یو جے کے جنرل سیکریٹری ناصر زیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافی برادری نے مجوزہ پی ایم ڈی اے کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ اس کا مقصد میڈیا کی آواز کو دبانا تھا۔
انہوں نے اسے ایک سخت قانون قرار دیا اور کہا کہ وہ ہر قیمت پر اس کی مزاحمت کرتے رہیں گے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کی حمایت
صحافیوں، مدیروں اور میڈیا سربراہان کے ایک عالمی نیٹ ورک انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے بھی پاکستان میں احتجاج کرنے والے صحافیوں کی حمایت کا اظہار کیا۔
ویانا سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ آئی پی آئی، پاکستان میں پی ایم ڈی اے کی سخت قانون سازی کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑا ہے، جس سے پاکستان میں آزادی صحافت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ پی ایم ڈی اے بل میڈیا پر ریاستی کنٹرول کو بڑھا دے گا جس کی وجہ سے واچ ڈاگ کا کردار کمزور ہوجائے گا جو پریس کو کسی بھی جمہوریت میں ادا کرنا چاہیے۔