• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکٹر 14، 15 میں پلاٹس کی قرعہ اندازی پر حکم امتناع

شائع September 13, 2021
عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے  14 اکتوبر کو طلب کرلیا—تصویر: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے 14 اکتوبر کو طلب کرلیا—تصویر: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف 14 اور 15 میں سرکاری ملازمین، ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹس کی الاٹمنٹ کے لیے قرعہ اندازی معطل کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کہا کہ جن متاثرین سے زمین لی گئی اور انہیں پلاٹس الاٹ ہوئے، وہ حکم امتناع سے متاثر نہیں ہوں گے۔

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اسٹیٹ اور ڈائریکٹر لا عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈی سی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی کابینہ نے اس معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جو کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کردی

چیف جسٹس نے ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم نے پوچھا تھا کہ وفاقی حکومت بتائے کہ پالیسی کیا ہے؟ برسوں سے منتظر لوگوں کو آپ نے کس طرح جمپ کر کے دوسروں کو پلاٹس دیے؟

ڈی سی ایف جی ای ایچ ایف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدلیہ، صحافیوں، وکلا اور خود مختار اداروں کو بھی کوٹہ سسٹم کے تحت پلاٹس دیے جاتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مزدور کا کیا قصور ہے؟ مزدور کو کیوں پلاٹ نہیں دیتے؟ آپ یہ بتائیں کہ ایف 14 اور ایف 15 میں کتنے اراکین ہیں جنہیں پلاٹ نہیں ملا؟

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ایک ویٹنگ لسٹ بھی تو ہو گی جس میں شامل تمام اراکین کو باری آنے پر پلاٹ ملے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پالیسی کیا تھی؟ جن کو کرپشن پر نکالا گیا آپ نے ان ججز کو بھی پلاٹ دے دیے، کیا پالیسی یہی ہے کہ کرپشن کی حوصلہ افزائی کی جائے؟

مزید پڑھیں: کسی جج نے پلاٹ الاٹمنٹ کیلئے درخواست نہیں دی، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریاست کی زمین کی تقسیم کیسے ہونی ہے اس سے متعلق پالیسی وفاقی کابینہ بنائے گی، کمیٹی پہلے ہی بنا دی گئی ہے، اسے کام کر کے رپورٹ جمع کرانے دیں، یہ ایشو وفاقی کابینہ نے اپنی رپورٹ سے حل کرنا ہے۔

ڈی سی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے کہا کہ متاثرین کو الاٹمنٹ اور ازالے کی رقم دینے کو تیار ہیں مگر وہ تعاون نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابھی متاثرین کی بات ہی نہیں کر رہے، آپ کے 31 سے 32 ہزار اراکین پلاٹ کے انتظار میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یا تو وفاقی حکومت کی پالیسی ہو کہ صرف بے گھر افراد کو پلاٹ ملے گا جو بیچ نہیں سکتا، آپ نے سزا یافتہ اور ملازمت سے برخاست کیے گئے ججز کو بھی پلاٹس دیے۔

جس پر وکیل نے کہا کہ جب انہوں نے پلاٹ اپلائی کیا ہوگا تو وہ ملازمت پر ہوں گے تاہم ابھی تک کسی کو فائنل الاٹمنٹ لیٹر جاری نہیں کیا گیا، فائنل الاٹمنٹ لیٹر متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی منظوری سے جاری ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: قرعہ اندازی میں چیف جسٹس سمیت متعدد ججز و بیوروکریٹس کے پلاٹ نکل آئے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پالیسی وفاقی حکومت نے دینی ہے، ان تمام ایشوز کو انہی کو دیکھنے دیتے ہیں۔

بعدازاں پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 اکتوبر کو طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط میں سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت کی عدلیہ کو سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کرتے ہوئے کہا کہ زمین کا یہ ایوارڈ سراسر مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

یہاں یہ بھی مدِ نظر رہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) نے رائے شماری کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وقار مسعود خان اور ڈاکٹر شہزاد ارباب سمیت بیوروکریٹس کو پلاٹ الاٹ کیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024