پاکستان کی میزبانی میں علاقائی ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کا اجلاس
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہفتہ کو افغانستان کی صورتحال پر خطے کے چند ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کے اجلاس کی میزبانی کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس اجلاس کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا لیکن ایک انٹیلی جنس ذرائع نے نجی طور پر اجلاس منعقد ہونے کی تصدیق کی۔
اجلاس میں روس، چین، ایران اور چند وسطی ایشیائی ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان نے شرکت کی۔
ذرائع نے کہا کہ 'پاکستان کی جانب سے اجلاس کی میزبانی سے خطے اور افغانستان میں امن کے لیے ہمارے خلوص کی عکاسی ہوتی ہے'۔
یہ پاکستان کی تازہ کوشش ہے جس نے گزشتہ چند روز میں افغانستان کے چھ پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ اور خصوصی نمائندوں کے اجلاسوں کی میزبانی کی تاکہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنگ زدہ ملک میں سامنے آنے والے حالات و واقعات سے ابھرنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ علاقائی حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار سے متعلق امریکی کانگریس میں بازگشت
افغانستان کے پڑوسی ممالک نے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ممالک نے افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر قابو پانے اور ایک جامع، مربوط اور ہم آہنگ ردعمل کے لیے باہمی تعاون پر اتفاق کیا'۔
علاقائی ممالک نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سیکیورٹی کی صورتحال، دہشت گردوں کی جانب سے دیگر ممالک پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے، شدت پسندی کے پھیلاؤ، مہاجرین کی آمد، منشیات کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی جرائم کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
روسی نیوز ایجنسی 'طاس' نے گزیٹا ڈاٹ آر یو نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رائے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روسی سیکیورٹی کونسل کے نائب چیئرمین دیمتری میدویدو نے خبردار کیا کہ وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدوں کے قریب افغانستان کے صوبوں میں دہشت گرد تنظیم 'داعش' کے ہزاروں اراکین موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'انٹیلی جنس سروسز کے مطابق اب خطے میں داعش کے ہزاروں دہشت گرد اور ان کے ہمدرد موجود ہیں جن کی بڑی تعداد وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدوں کے ساتھ شمالی اور مشرقی صوبوں میں موجود ہے جبکہ داعش کی قیادت نے کھلے عام پورے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا اعلان کیا ہے'۔
اس کے علاوہ بدھ کو امریکی سی آئی اے کے سربراہ وِلیم بَرنز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات کی تھی۔
مزید پڑھیں: وعدے پورے کریں تو طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے، امریکا
وہ یہاں نئی صورتحال پر امریکی خدشات کے اظہار اور یہ دیکھنے کے لیے آئے تھے کہ پاکستان کس طرح اس صورتحال کا سامنا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
قبل ازیں 4 ستمبر کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر طالبان کی نئی حکومت سے ملاقاتیں کیں۔
ذرائع نے کہا کہ انہوں نے کابل میں ملاقاتوں میں دیگر معاملات کے علاوہ داعش، القاعدہ، ای ٹی آئی ایم، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور جنداللہ کی جانب سے پڑوسی ممالک کو دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت پر زور دیا تھا۔
اسلام آباد نے افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ نئی سیاسی حکومت افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام کی مربوط کوششوں کو یقینی بنائے گی۔