نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس
اسلام آباد پولیس کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں جمع کروائی گئی تفتیشی رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تفتیشی رپورٹ جسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 173 کے تحت چالان بھی کہا جاتا ہے، اس میں کہا گیا کہ اگر (ظاہر جعفر کے) ساتھیوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔'
ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج عطا ربانی کے پاس جمع کروائے گئے چالان میں کہا گیا کہ نور نے ظاہر جعفر کی غیر قانونی قید سے 2 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں:پولیس نے نور مقدم قتل کیس میں چالان جمع کرا دیا
تاہم سیکیورٹی گارڈز اور مالی کی ملی بھگت کی وجہ سے وہ فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
مزید برآں وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔
تاہم ملزم کے والدین نے پولیس کو آگاہ نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے جب اس نے لڑکی کا گلا کاٹ دیا تو اسے یہ کہہ کر تسلی دی کہ 'پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں معاملہ سنبھال لوں گا، میں آپ کو نکالنے اور لاش ٹھکانے لگانے کے لیے لوگوں کو بھیج رہا ہوں'۔
چالان کے مطابق ظاہر جعفر کو 19 جولائی سہ پہر 3 بج کر 50 منٹ پر قطر ایئرلائن کی پرواز سے امریکا روانہ ہونا تھا لیکن وہ نہیں گیا۔
پولیس نے 18 گواہان کی فہرست بھی جمع کروائی جس میں مقتولہ کے والد شوکت علی مقدم، پوسٹ مارٹم کرنے والا ڈاکٹر اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
ملزم کا اعتراف جرم
چالان میں کہا گیا کہ 18 جولائی کو نور سیکٹر ایف-7/4 میں ظاہر جعفر کے گھر پہنچیں اور سیکیورٹی گارڈ نے انہیں اندر داخل ہونے دیا جبکہ ایک پالتو کتے نے بھی ان سے مانوسیت کا اظہار کیا۔
تاہم نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔
مزید پڑھیں: ظاہر جعفر نے نور مقدم کے قتل کا اعتراف کرلیا، پولیس کا دعویٰ
ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔
مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔
چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
بعدازاں ظاہر نے انہیں دوبارہ کمرے میں بند کردیا تاہم نور نے بھرپور کوشش کرکے واش روم کی کھڑکی سے چھلانگ لگادی اور دوبارہ مرکزی دروازے کی جانب بھاگیں لیکن سیکیورٹی کارڈ ان کی مدد کرنے کے بجائے بیسمنٹ میں چلا گیا جبکہ مالی محمد جان نے انہیں گھر کا مرکزی دروازہ نہیں کھولنے دیا اور ظاہر نے نور کو گھسیٹ کر کمرے میں لے جا کر گلا کاٹ دیا۔
کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔
تھراپی ورکس کے ملازمین کا کردار
تفتیشی رپورٹ کے مطابق شواہد اور لاش چھپانے کے لیے ظاہر جعفر نے تھراپی ورکس کے 5 ملازمین کو اپنی رہائش گاہ /جائے وقوع پر بلایا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست
جب ورکرز نے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ظاہر پریشان ہوا اور ان پر حملہ کردیا جس سے امجد محمود نامی ایک ورکر زخمی ہوگیا جسے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
تاہم زخمی نے ہسپتال انتظامیہ سے جھوٹ بولا اور میڈیکل رسید میں وقوعہ کا اندراج نہیں کروایا اس کے بجائے زخمی ہونے کی وجہ روڈ ایکسیڈنٹ بتایا۔
چالان کے مطابق ظاہر جعفر کے والدین اور تھراپی ورکس کے ملازمین نے جرم چھپانے اور شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی۔
شکایت کا اندراج
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 19 جولائی کو مقتولہ کے والد شوکت مقدم قربانی کا بکرا خریدنے کے لیے مویشی منڈی گئے، جب واپس آئے تو گھر میں نور موجود نہیں تھی۔
انہوں نے اپنی اہلیہ سے نور کو کال کرنے کا کہا لیکن ان کا فون بند تھا، بعدازاں نور نے اپنے والدین کو کال کرکے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ چند روز کے لیے لاہور جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: ملزم گرفتاری کے وقت مکمل ہوش و حواس میں تھا، پولیس
شوکت مقدم کے مطابق میرے معلومات کرنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔
تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔
پولیس کے پیش کردہ شواہد
پولیس نے ایک چاقو، 9ایم ایم پستول اور میگزین، آہنی مکا، سگریٹ کے بٹ، ایک لیپ ٹاپ، ظاہر کی خون آلود شرٹ، انگلیوں کےنشانات، سی سی ٹی وی فوٹیج، میڈیکل رپورٹس، موبائل فون اوت فرانزیک رپورٹس چالان کے ساتھ جمع کروائی۔