فیس بک کے رے بین اسٹوریز اسمارٹ گلاسز متعارف
فیس بک نے اپنے اولین اسمارٹ گلاسز متعارف کرا دیئے ہیں جو سوشل میڈیا نیٹ ورک نے رے بین نامی کمپنی کے ساتھ مل کر تیار کیے ہیں۔
خیال رہے کہ فیس بک کی جانب سے اسمارٹ فونز کے خاتمے کے لیے عرصے سے مختلف ڈیوائسز کی تیاری کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
رے بین اسٹوریز اسمارٹ گلاسز دیکھنے میں عام چشمے جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر ان سے اسمارٹ فونز جیسے متعدد کام کیے جاسکتے ہیں۔
اسمارٹ گلاسز میں 5، 5 میگا پکسل کے 2 کیمرے موجود ہیں جن سے تصاویر کھینچی جاسکتی ہیں اور ویڈیو ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔
موسیقی کو سنا جاسکتا ہے جس کے لیے فریم میں اسپیکرز موجود ہیں اور وہی اسپیکرز فون کالز میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
ان گلاسز کو کسی آئی او ایس یا اینڈرائیڈ ڈیوائس سے کنکٹ کرنا ہوگا۔
فیس بک کی نئی ویو ایپ کی مدد سے رے بین گلاسز سے کھینچی جانے والی تصاویر یا ویڈیوز یا میڈیا فائلز کو فونز میں ٹرانسفر کیا جاسکتا ہے۔
کمپنی کے مطابق دونوں کیمروں کی مدد سے صارفین تھری ڈی ایفیکٹس کو تصاویر اور ویڈیوز میں ایپ میں اپ لوڈ کرکے ایڈ کیے جاسکتے ہیں۔
اسمارٹ گلاسز کا وزن 50 گرام سے بھی کم ہے اور یہ لیدر ہارڈ شیل چارجنگ کیس کے ساتھ دستیاب ہوں گے۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس ڈیوائس کی بیٹری پورا دن کام کرتی ہے۔
گلاسز میں 2 بٹن بھی ہے جن میں سے ایک میڈیا ریکارڈ کرنے کا کام کرتا ہے اور دوسرا آن آف سوئچ ہے۔
گلاسز کی دائیں کمانی میں ایک ٹچ پیڈ ہے جس سے مختلف افعال جیسے والیوم ایڈجسٹ یا فون کال ریسیو کرنے جیسے کیے جاسکتے ہیں۔
گلاسز میں وائٹ ایل ای ڈی ویڈیو ریکارڈ کرتے ہوئے جگمگانے لگے گی جس سے ارگرد موجود لوگوں کو علم ہوجائے گا کہ ویڈیو ریکارڈ کی جارہی ہے۔
یہ اسمارٹ گلاسز واٹر پروف یا سپلیش پروف نہیں تو پانی سے بچانا ہوگا۔
یہ اسمارٹ گلاسز رے بین کے 3 کلاسیک اسٹائلز میں دستیاب ہوں گے اور متعدد رنگوں اور لینس کے ساتھ خریدے جاسکیں گے۔
درحقیقت ان گلاسز کو نظر کے چشمے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فیس بک کے مطابق رے بین گلاسز کی قیمت 299 ڈالرز (50 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) سے شروع ہوگی۔
یہ فیس بک کی اے آر ٹیکنالوجی کی مدد سے اسمارٹ فونز کا عہد ختم کرنے کے منصوبے کی جانب سے پہلی پیشرفت ہے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اسمارٹ گلاسز کو متعارف کرانے کے موقع پر بتایا کہ رے بین اسٹوریز اس مستقبل کی جانب اہم پیشرفت ہے جب فونز لوگوں کی زندگیوں کا بنیادی حصہ نہیں ہوں گے۔